جشن جمہوریہ لیکن کس قیمت پر؟

23 مارچ 2018ء کا یوم جمہوریہ کا جشن دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی آزادی کے لئے کی گئی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ پاکستان میں یوم آزادی کی تقریبات جس اہتمام سے منائی جاتی ہیں اس کے پس منظر سے واقف ہونا ضروری ہے۔ آج ہم تفصیل سے ماضی قریب اور ماضی بعید میں پیش آنے والے اُن تمام معاملات کا جائزہ لیں گے جو ہماری اس تباہ کن صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کانگریس نے نام نہاد سیکولر ازم کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم کیا ہوا تھا۔ الطاف حسین حالی، سر سید احمد خان، علامہ اقبال اورقائداعظم محمد علی جناح کی سوچ اور فکر کے مخالف بڑے بڑے نامور مسلمان جن میں حسین احمد مدنی سے لے کر ابو الکلام آزاد تک اور مولانا مودوی سے لے کر علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک تک جو یہ مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار جماعتیں قائداعظم ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کی سخت مخالف تھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کی تقسیم کا عمل سازشوں کا شکار ہوگیا۔ بونڈری کمیشن بنا تو اس میں پنڈت نہرو نے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن اور اس کی بیگم سے اپنے دوستانہ مراسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بونڈری کمیشن میں اپنے ایک خاص آدمی کو ریڈ کلف کا اسسٹنٹ تعینات کرا دیا چنانچہ طے شدہ نقشوں سے ہٹ کر پنجاب کے مسلمان اکثریت والے علاقوں پٹھان کوٹ وغیرہ کو بھارت میں شامل کر دیا جس کے نتیجے میں بھارت کو کشمیر میں دراندازی کے لیے زمینی راستہ مل گیا۔ 14 اگست 1947ء سے پہلے راجستھان، دہلی، بہار، پنجاب اور دوسرے شہروں میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا وہ بھی تقسیم برصغیر کے طے شدہ اصولوں کے سراسر منافی تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں بے گناہ مسلمان تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔
میں 9/10 سال کی عمر میں ان واقعات و حالات کا نہ صرف عینی شاہد ہوں بلکہ میرا بچپن اور جوانی ان حادثات کی نذر ہوگیا میں نے والٹن کے مہاجر کیمپ میں لٹے پٹے قافلے بھی دیکھے ہیں اور ریلوے اسٹیشن پر گولیوں سے چھلنی زخمی، لہولہان ٹرینیں بھی دیکھی ہیں، اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، بے شمار کتابیں موجود ہیں آئیے اب ہم ان اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جو تقسیم کے بعد پیش آئے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کا کہنا تھا کہ ان حالات میں پاکستان کی حکومت کا چلنا ناممکن ہوگا اور آنے والے چند مہینوں میں پاکستانی گھٹنے ٹیک دیں گے اور بھارت کی یونین میں شامل ہونے کی درخواست کریں گے یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کا یہ علاقہ جو آج پاکستان کہلاتا ہے اس کے ایک مختصر حصے سنٹرل پنجاب میں آزادی کی جدوجہد سے لوگ واقف تھے۔ ملک خضر حیات ٹوانہ کی یونینسٹ پارٹی جو نوابوں، وڈیروں، تمن داروں اور انگریز آقا کے غلاموں پر مشتمل تھی ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ دوسری جنگ عظم کے دوران برطانیہ کی فوج میں بھرتی کے لیے جوان مہیا کریں۔ لاہور سے لے کر کراچی، کوئٹہ اور پشاور کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا، جہاں کسی بھی قسم کی صنعت قائم ہو، اسے زرعی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ تجارت بھی ہندو اور سکھوں کے ہاتھ میں تھی ویسے بھی مسلمانوں کو صنعت و تجارت کا نہ کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی ان کے پاس سرمایہ تھا۔ لاہور جیسے شہر میں بمشکل دو خاندان ایسے تھے جو جدی پشتی رئیس کہلاتے تھے لیکن ان کی دولت بھی ان کی زمینوں کی صورت میں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور کے اندرون شہر کے علاوہ انار کلی، مال روڈ اور دو تین مارکیٹوں میں 99 فیصد مقامی ہندوئوں اور سکھوں کی اجارہ داری تھی میںذاتی طور پر ان دنوں لاہور شہر میں اپنی روٹی روزی کے لیے اخبار بیچ کر گزارہ کیا کرتا تھا۔ اس اخبار فروشی نے مجھے شہر لاہور سے واقف کروا دیا دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب دُکانیں اور جائیدادیں حکومت نے مہاجرین جو بھارت سے آئے تھے کو الاٹ کر دیں۔ الحمدللہ آج پاکستان کے ہر صوبے میں چیمبر آف کامرس کام کر رہے ہیں چھوٹی بڑی صنعتیں بھی لگ گئی ہیں اور وقت کے ساتھ نئی نسل کو تعلیم کے ساتھ کاروبار کرنا بھی آگیا ہے۔ اب صنعت کا کوئی نمائندہ دنیا میں یا ہندوستان جاتا ہے تو وہ برابری کی سطح پر تجارت کی کوشش کرتا ہے۔ پنڈت جوال لال نہرو نے پاکستان کے بارے میں جو پیشن گوئی کی تھی اسے پاکستانیوں نے مسترد کر دیا۔ بھارت نے پاکستان تباہ کرنے کے لئے ’’را‘‘ کے ذریعہ زبردست منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس پر بے تحاشہ دولت خرچ کر رہا ہے۔ پچھلے دنوں بھارت کی قومی سلامتی کے وزیر اجیت دول نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے پاکستانیوں کو ہی خرید کر استعمال کریں گے۔ جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ بھارت کی فوج نے جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ نواب نے اپنی جان بچا کر کراچی میں پناہ لی۔ کراچی کے قریب سمندر میں دلدلی علاقوں پر مشتمل سرکریک کا علاقہ ہے اس پر بھارت نے قبضہ کرنے کے لیے فوج کشی کی لیکن پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیا۔
آج بھی اس علاقے میں پاکستانی اور بھارتی فوجیں مورچہ زن ہیں۔ حیدر آباد دکن جو ایک خود مختار ریاست تھی، کی خود مختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارت حملہ آور ہوا اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کرکے اس آزاد ریاست پر بھی قبضہ کر لیا۔ کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد جاری تھی۔ گلگت بلتستان اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور قریب تھا کہ وہ پاکستان سے الحاق کر لیتا۔ بھارت کے انگریز کمانڈرانچیف نے پاکستان کی افواج کے انگریز سالار کو کشمیر میں کارروائی سے روک دیا اور بھارت کی افواج پیراشوٹ سے سری نگر میں اتر گئیں۔ کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزدی اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک آزادی کا نعرہ لگاتے نوجوان پاکستانی پرچم اٹھائے کشمیر کی وادی میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں پیلٹ گن سے نوجوانوں کو نابینا اور اپاہج بنایا جا رہاہے لیکن کشمیری قیادت ایک لمحے کے لیے بھی اپنے عزم آزادی کے مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹی ان کا ایک ہی نعرہ ہے لے کے رہیں گے آزادی ۔ حیرت ہے دنیا کی وہ تمام قومیں جو انسانی حقوق کی، انسانیت کی بات کرتی نہیں تھکتیں، وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ گویا مسلمانوں کا خون انسانیت کا خون نہیں ہے اسی طرح گوا جو ایک آزاد پرتگیزی ریاست تھی اور وہاں کی آبادی کی اکثریت عیسائی تھی اس پر بھی بھارت نے حملہ کر کے زبردستی قبضہ کر لیا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن