تاریخ کے اوراق پر جگمگ کرتا لاہور کا استعارہ اپنی پوری آب وتاب دکھاتا ہوا ہمیشہ سے روحانی طورپر متحرک رہا ہے۔ 1940ء میں قرارداد پاکستان کا یہاں منظور ہونا بھی اسی تابناک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ضمن میں تاریخ کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے سب کچھ بتاتی ہے‘ اس خود آگاہی کا سلسلہ تصوف اور روحانی اقدار سے جوڑ کر دیکھیں تو سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ذرا دیکھئے مجدد الف ثانی جب اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی بااللہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تو روحانی اسباق کی تعلیم دیتے ہوئے انہیں حکم دیا گیا کہ لاہور جاؤ اور کچھ عرصہ وہاں قیام کرو۔ روحانی طور پر لاہور کی اس افادیت کو جا بجا دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش جب سلطان محمود غزنوی کے لشکر کے ہمراہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے اس حد درجہ خصوصیت کو اظہر من الشمس کیا۔ یہ کیا افادیت تھی؟ اس ضمن میں ان کے حوالے سے تاریخ ہمیں ایک واقعہ سے آگاہ کرتی ہے۔ لاہور میں دریائے راوی اس زمانے میں داتا دربار کے قریب بہتا تھا‘ آپ نے لاہور پہنچ کر دریا کنارے ڈیرہ ڈال دیا۔ دریا کے اس پار ہندوؤں کا ایک مندر تھا‘ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان صوفی دریا کے کنارے آ بیٹھا ہے اور لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے ہم رکاب ہے‘ متعصب ہندوؤں نے اسے اپنے لیے اعلان جنگ سمجھا اور لڑائی کی تیاری کرنے لگے‘ حقیقتاً مسلمان صوفیا اس زمانے میں بت پرست ہندوؤں کو بھی راہ راست پر لانے کے لیے مختلف علاقوں میں جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ لہذا حضرت داتا گنج بخش کے عزائم ہرگز لڑائی کے نہ تھے‘ انہوں نے فوراً ایک سفید رنگ کا جھنڈا اپنی خانقاہ پر لہرادیا‘ جو امن کی علامت تھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ آج کے بعد یہ جھنڈا سرنگوں ہوگا اور نہ ہی کوئی طاقت اسے شکست دے سکے گی۔ چنانچہ روحانی طورپر کہا جاسکتا ہے قیام پاکستان حضرت داتا گنج بخش کے دیئے ہوئے لائحہ عمل کے مطابق عمل میں آیا اور انہوں نے اس ملک خداداد کی بقا کا عندیہ جس انداز سے ہی دیا۔ اس کی ایک جھلک جنگ ستمبر 1965ء میں چشم فلک نے دیکھ لی‘ جب بھارتی فوج نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کرکے ان مذموم عزائم کا اظہار کیا تھا کہ وہ صبح دم ناشتہ لاہور میں کریں گے‘ پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ میجر عزیز بھٹی شہید اور ان کے شیردل پاکستانی فوجیوں نے دشمن کو بی آر بی نہر ہی عبور نہ کرنے دی۔ لاہور کے اس روشن استعارے کی افادیت دراصل اس وقت ہی ظاہر ہوگئی تھی‘ جب خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری اپنے روحانی مسکن اجمیر میں قدم رنجہ ہونے سے پہلے لاہور آئے اور مزار حضرت داتا گنج بخش پر چلہ کشی کی۔ یہ سب کیا تھا؟ دیکھنے والوں کے لیے ایک درس حقیقت شناسی تھا۔ آپ دراصل نوک پبلک جمال میں جو ایک لمحہ 14 اگست 1947ء کا آنے والا تھا‘ اسے روحانی طور پر سپورٹ کرنے کے لیے لاہور حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر انوار پرتشریف لائے ‘ کیونکہ پاکستان کو حضرت داتا گنج بخش کی روحانی اور ابدی رہنمائی میں ہی منصہ شہود پر آنا تھا‘ آپ نے بعض حد درجہ باریک روحانی حقیقتوں کا اظہار بھی اس وقت اپنے اس شعر میں کیا…؎
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیر کامل‘ کاملاں را رہنما
لہذا ہم پورے ایقان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان حضرت داتا گنج بخش کے اس خطہ پر روحانی تصرفات اور کمالات کی وجہ سے وجود میں آیا۔ قرارداد پاکستان یہاں منظور ہوئی‘ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کا مسکن بھی یہاں تھا‘ وہ حضرت داتا گنج بخش کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتے تھے۔ اہل نظر نے حضرت علامہؒ کا وہ واقعہ ضرور پڑھا ہو گا جب حضرت داتا صاحب روحانی طور پر خود اس مرد قلندر کے گھر تشریف لائے‘ علامہ کا ملازم علی بخش رات کے وقت بازار سے لسی لے کر آیا‘ جو انہیں پیش کی گئی‘ اس واقعہ کا راوی بھی علی بخش ہے۔ خود حضرت علامہ وفات سے قبل دورہ افغانستان میں حضرت داتا گنج بخش کے والد محترم کے مزار پر بطور خاص دعا کے لیے حاضر ہوئے۔ اس دورہ میں ان کے ہمراہ سرراس مسعود اور سید سلیمان ندوی بھی تھے۔تاریخی حقائق روحانیت کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ امروثوق اور سچائی تک پہنچتا ہے کہ تحریک پاکستان میں 23 مارچ 1947ء کی کامیاب وکامران منزل کا پس منظر روحانی طورپر حضرت داتا گنجش بخش کے روحانی تفرقات تھے اور پھر یہ مرحلہ جب 14اگست 1947ء کو عملی صورت میں منصہ شہود پر آیا تو بھی اس کو داتاصاحب کی روحانی سپورٹ حاصل تھی۔ یہاں تک کہ یوم تکبیر کے مرحلے تک لے کر جانے میں بھی اسی صوفی بزرگ کا حق پرست ہاتھ تھا ‘ ان روحانی مراحل کو ہم تائید ایزی سے معنون کرتے ہیں‘ اللہ کریم نے پاکستان کے قیام کی خاطر جو انتظام واہتمام کیا‘ اس میں بہت سے دیگرروحانی بزرگوں کا بھی بہت روشن کردار ہے‘ قائداعظمؒ کے ہراول دستے میں پیرمہر علی شاہ، پیر جماعت علی شاہ‘ مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا شبیر احمد عثمانی‘ کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ قرارداد پاکستان کی منزل سیاسی کامرانیوں کے ساتھ ساتھ روحانی انتظام وانصرام کے ساتھ حاصل ہوئی تھی‘ قدرت کے کام دیکھیے کہ قرارداد منظور ہونے کے بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ نے قرارداد لاہور کا نام دیا لیکن لاہور کے متعصب ہندو پریس نے اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کر دیا‘ اس پر مسلم لیڈر شپ نے اپنے ایمانی وایقانی جذبے کے ساتھ برجستہ کہا کہ ہاں یہ قرار داد پاکستان ہی ہے اور ہمیں اس پر قطعاً کوئی شرمندگی نہیں۔برصغیر میں اسلامیوں کے الگ وطن کا امیج حضرت علامہ اقبالؒ کے ویژن میں تاریخی و سیاسی حقائق کے ساتھ راسخ ہوا تھا اور چونکہ وہ روحانیت میں بھی دخیل تھے،اس لیے جو بات بھی انہوں نے کی وہ اسلامی و روحانی تائید کے ساتھ تھی،ان کے ایقان میں مسلمانوں کے لیے دو قومی نظریہ ایک نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا،جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے،اس لئے انہوں نے اپنے افکار میں’’گربحرفم غیر قرآں مضمراست‘‘ کا دعویٰ بھی کیا تھا،اس کے پہلو بہ پہلو یہ حقیقت بھی تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح علامہ کے تصورات کے صحیٖح معنوں میں پیروکار تھے۔اللہ کریم نے قائد و اقبال کو وہ ویژن عطا کیا تھا کہ تاریخ کے کس مرحلے پر بھی دونوں کے نظام فکر میں کوئی بنیادی تفاوت پیدا نہیں ہوئی، سوائے جناح لیگ اور شفیع لیگ والے معاملے کے،یہ قضیہ بھی بعدازاں فراست و دانائی کے ساتھ حل کرلیا گیا تھا۔قائدو اقبال دونوں لاہور کے روحانی استعارے کے وارث تھے،جو ان تک روحانیت کی ایک پختہ روایت کے طور پر پہنچا تھا۔عمیق نگہی سے دیکھا جائے تو برصغیر کی مسلم سیاست کے تیور ہمیشہ روحانیت کے دم قدم سے ہی استوار ہوتے رہے ہیں،تحریک مجاہدین کے آخری پڑاؤ کے مرحلے پر جب اگلے دن مجاہدین کا مقابلہ سکھ فوج سے ہونا تھا، سید احمد شہید نے شاہ اسماعیل شہید کی معیت میں اپنے سر فروش مجاہدوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،کل ہماری سکھوں سے جنگ ہے،اس میں فتح یاب ہوئے تو ہم لاہور میں ہوں گے اور اگر شہید ہوگئے تو جنت الفردوس ہمارا مسکن ہوگا۔حقیقت یہی ہے کہ تحریک پاکستان کا روحانی سلوگن بھی یہی تھا کہ جان دے دیں گے، پاکستان ضرور بنائیں گے اور لمحہ موجود تک اب یہ روحانی نعرہ اپنے پورے قرائن کے ساتھ روبہ عمل ہے، جس میں قیام پاکستان کے بعد تکمیل و تعمیر پاکستان کے عزائم بھی موجود ہیں اور لاہور کا روحانی استعارہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگ کررہا ہے۔