حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ

Mar 22, 2018

خالد محمود ہاشمی

ن لیگ حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ27 اپریل کو منظرعام پر آئے گا پانچ بجٹ پیش کرنے کا سہرا اسحاق ڈار کے سر رہا۔ چھٹا بجٹ پڑھنے کی ذمہ داری وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل پوری کریں گے۔ سرکاری بنچوں کی تالیوں سے نہال اور اپوزیشن کی نعرہ بازی سے بے حال ہوں گے۔ چھٹے بجٹ کے معمار وزیراعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہیں وہ جاتے جاتے اپنے دور کی نج کاری کی یاد چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کا الوداعی دن 31 مئی ہو گا۔ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی قرضوں میں کمی جب کہ ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں کے لئے لوڈشیڈنگ دفع ہو چکی ہے سسٹم میں 12 ہزار میگا واٹ بجلی شامل ہوئی ہے مزید20 ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے جاری ہیں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6 فیصد ہونے جا رہا ہے جو گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ ہو گا۔ مفتاح اسماعیل کے نزدیک اکائونٹ کے خسارے میں اضافہ کی بڑی وجہ ہیوی مشینری کی درآمد ہے، تاہم زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر ہیں۔ سی پیک ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اسے 2030 میں مکمل ہونا ہے۔ آئی ایم ایف کا مانیٹرنگ کیمرہ سارا سال ہمارے سر پر معلق رہتا ہے اس کے اندازے میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کل نیشنل انکم کا 4.8 فیصد یا 16.6 ارب ڈالر ہے۔ یہ حکومتی دعوے سے 83 فیصد زیادہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 12.1 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں جو 10 ہفتے کی درآمدات بھی بہ مشکل پوری کر سکے گا جلسوں میں کہی گئی باتوں اور زمینی حقائق میں بڑا فرق ہوتا ہے عام شہری تو اکنامکس اور فنانس سے بے بہرہ ہوتا ہے اسے موٹروے، فلائی اوور، انڈر پاس، گلیاں سیوریج سے آگے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ آئی ایم ایف اور اسلام آباد کے اکنامک منیجرز ایک پیج پر نہیں ہوتے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ گروتھ ریٹ 5.6 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا تاہم بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا 5.5 فیصد یعنی 2 کھرب روپے کے برابر ہو گا جب کہ حکومت کا اندازہ4.1 فیصد یا 1.48 کھرب کا ہے۔ بیرونی قرضے اور ادائیگیاں 89 ارب ڈالر ہیں ایسے میں کوئی نوبل انعام یافتہ وزیر خزانہ بھی خسارہ فری بجٹ نہیں بنا سکتا۔ ہم دنیا بھر کے ملکوں کے آگے بچھ جائیں۔ رات دن یس سر یس سر اور ڈومور، ڈومور بھی کرکے دیکھ لیں۔ کوئی بھی ہمارے سر سے 89 ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ اتارنے کا احسان نہیں کرے گا۔ خود ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو تنگ دست قرضوں مقروضوں اتارتے ہیں ہمارے ہاں تو بھائی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حصہ دینے کو تیار نہیں ہوتے، انہیں عدالتوں میں رُلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہماری سڑکیں، ہمارے تعلیمی ادارے، ڈسپلن سے ہی تو محروم ہیں۔ ہم قطار میں کھڑے ہونے کو عار سمجھتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر محاذ آرائی کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے لیڈروں کے بیانیے اور مختلف دینی فرقوں اور مسلکوں کے بیانیوں میں کوئی فرق نہیں۔ ہر کوئی اپنے بیانیے کو حق سچ اور دوسروں کے بیانیے کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ملک کے اکنامک ایجنڈے پر تو سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ چھٹا بجٹ بھی قومی اسمبلی سے فنانس بل کے ساتھ پاس ہو جائے گا۔ تاہم سینٹ منی بل کے بارے میں سفارشات منظور کرے گی۔ بجٹ پر پارلیمنٹ میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی۔ بجٹ دستاویزات کا بنڈل ہر رکن قومی اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا جو اس کے لئے ردی کے بوجھ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
2018-19 کا بجٹ بھی گزرے بجٹوں کا تسلسل ہو گا۔ سارا زور سیلز ٹیکس کے نام پر بالواسطہ ٹیکسوں پر ہو گا پانچ ہزار ارب روپے آمدنی کا ہدف مقرر ہو گا۔ ’’کمائے گی دنیا اور کھائیں گے ہم‘‘ والا معاملہ ہو گا۔ مفتاح اسماعیل اسحاق ڈار کے مقلد ہیں بلیک منی رکھنے والوں کا وہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ناجائز آمدنیوں سے بننے والی کتنی جائیدادیں نیلام اور کتنے پلازے بحق سرکار ضبط ہوئے ہیں؟ سیاسی محاذ موسم کی گرمی کے ساتھ گرم ہوتا جائے گا سیاسی دوست اور دشمن کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ جنوری میں بلوچستان میں ن لیگ کی حکمرانی الٹائی گئی۔ جواں سال عبدالقدوس بزنجو وزیراعلی بنے اور بعدازاں زرداری عمران اتحاد رنگ لایا ن لیگ کے پر کاٹ دیئے گئے زرداری کا جملہ اکبراعظم سے کم نہ تھا کہ ’’تھینک یو میں نہیں چاہتا‘‘ (کہ رضا ربانی چیئرمین سینٹ بنے) ایوان بالا میں عمران کے ہاتھ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ بھی نہیں آئے گی۔ شیری رحمان کے چہرے کی چمک بتا رہی ہے کہ وہ کچھ بننے جا رہی ہے۔ زرداری اور عمران کھلونے نہیں بلکہ کھیل رہے ہیں، کھیلنے کے لئے کھلونوں کا ہونا ضروری ہے۔ سیاست کھیل اور کھلونوں کا ہی تو نام ہے۔ جلسۂ عام کے سٹیج پر کھیلنے والے کئی کھلاڑی اور ان کے روبرو کرسیوں پر براجمان کھلونے اور ان کے جذبات ہوتے ہیں۔ جذبات سے کھیلنے کے لئے بیٹ بلا نہیں لفظوں کی ’’کھونڈی‘‘ درکار ہوتی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ الیکشن ہوں گے عدلیہ کے فیصلوں پر من و عن عمل ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ 2018 کے الیکشن میں نوازشریف نہ ہوئے تو کیا ہو گا۔ بظاہر وہ انشااللہ ’’وزیراعظم‘‘ نامزد ہیں۔ نوازشریف اداروں سے جنگ لڑتے لڑتے سیاسی شہید کا رتبہ پائیں گے یا پھر سر تسلیم خم کر لیں گے۔ سسٹم انہیں آئندہ دیکھنا نہیں چاہتا۔
سرکاری کالجوں میں سال میں دوبار انٹرمیڈیٹ کے طلبا سے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں ٹیچرز کی دلچسپی بورڈ اور یونیورسٹی کے پرچوں کی زیادہ سے زیادہ بل بنانے کے لئے مارکنگ اور سیکنڈ شفٹ کی فی پیریڈ معاوضے والی کلاسیں لینے میں ہوتی ہے وہ کالج میں ہونے والے امتحانات کے پرچے طالب علموں ہی سے چیک کروا لیتے ہیں حقیقت میں ہر سال پرچوں کی شکل میں لاکھوں روپوں کی ردی اکٹھی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار محسن پاکستان ہیں کہ وہ احکامات جاری کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کسی کو جاری کرنا نصیب نہیں ہوئے۔ سیاسی رہنمائوں کی تصاویر سرکاری خرچ پر شائع یا نشر نہ کرنے اور فلیکسیں اتارنے کا حکم عوام کے دلوں کو خوش کر گیا۔ سیاسی رہنما سابق ہوں یا موجودہ ان کی تصویر سرکاری اشتہارات میں نہیں ہونی چاہئے۔ کل ٹیکسوں میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح 20.6 فیصد ہے 1994-95ء میں یہ شرح جی ڈی پی کا 2.74 فیصد تھی۔ آمدنی کا سارا انحصار بالواسطہ اور ودہولڈنگ ٹیکسوں پر ہے امراء کبھی بھی پروگریسو ٹیکسوں کا نظام نافذ نہیں ہونے دیں گے کیا کسی میں ہمت ہے کہ دولت کی ازسرنو تقسیم کرکے دکھائے ازسرنو صرف انتخابی حلقہ بندی ہو سکتی ہے۔ وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر کو کون اسلامی مساوات کہہ سکتا ہے ؟ 50 فیصد سے زیادہ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کرائے کے گھروں میں رہتے اور اُدھار، خیرات زکوۃ یا بھیک پر زندگی گزارتے ہیں بیماری ، دکھ درد ، بے انصافیاں انہیں کھا جاتی ہیں۔ قبرستانوں میں تدفین کے اخراجات کا کسی نے نوٹس لیا ہے؟
کسی امیر پر کبھی پروگریسو ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ہم سارے بظاہر آزاد لیکن89 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نواز شریف ستمبر سے اب تک مریم کے ہمراہ عدالتی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ صرف بیمار اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن گئے اور واپس آ گئے۔ نواز شریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ان کی ایک خوبی سے انکار نہیں کہ وہ بزدل رہنما نہیں۔ وہ اپنے مخالفوں کے لئے میدان چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہتے۔ مشرف غیر سیاسی تھا اس لئے اسے بھگوڑا بننے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ نااہلی کے بعد ان کا کوئی اس سے زیادہ کیا بگاڑ لے گا کہ انہیں اڈیالہ بھجوا دے۔ آئین کے آرٹیکل45 کے تحت صدر مملکت کو سزا کی معافی کا اختیار ہے۔ لہٰذا ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ مشرف نے انہیں جدہ بھجوایا تھا وہ بھاگے نہیں تھے۔ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں چیئرمین سینٹ کی طرح کوئی نیا ’’صادق سنجرانی‘‘ ووٹروں کو حیرت میں ڈال سکتا ہے سنجرانی پیدا نہیں ہوئے پیدا کئے جاتے ہیں۔ بظاہر دو ہی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ن لیگ سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے دوسری یہ کہ ’’سب پر بھاری‘‘ کا پنجاب میں واپسی کا امکان نہیں۔ پیپلز پارٹی پر بلاول بھی اپنی چھاپ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ سیاست وہ فلم ہے جسے نابالغوں (سیاسی نابالغوں) کا دیکھنا منع ہے عمران خان کی پے در پے شادیوں اور ’’نئے لیڈروں کا داخلہ منع ہے‘‘ کی پالیسی نے ان کا گراف گرا دیا ہے عقل کُل ہونا دراصل بے عقل ہونا ہے۔ اب تک ان کا ایجنڈا حکومت گرانا رہا ہے۔ بریڈ کے سلائس بن جائیں پھر وہ کبھی نہیں جڑتے، یہی حال ایم کیو ایم کا ہوا ہے!

مزیدخبریں