نہ مجلس ہے نہ عمل ہے اور اتحاد کے تو کیا کہنے’ کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا تھا۔ ایم ایم اے ایسی مجلس، ایسی محفل اور ایسی بیٹھک کا نام ہے جو نہ متحد ہے اور نہ ہی عمل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اسے ’سیاسی مفاد پرستوں‘ کا ایسا ’کارٹل‘ کہا جا رہا ہے جو انتخابات کو ایک ’پراجیکٹ‘ کے طور پر لیتا ہے۔ سیاسی دیہاڑی لگانے اور اپنے اپنے حصے کا سیاسی ’مال غنیمت‘ سمیٹنے کے ساتھ اپنی اپنی اطراف پھر سے نکل جاتا ہے۔ نماز میں ایک امام کے پیچھے جمع نہ ہونے والے ’اقتدار‘ میں آنے کے لئے جمع ہوگئے۔ امت کا اور نہیں یہی اصل مسئلہ ہے جو قائدین کی صورت عبرتناک مثال بن کر ہمارے سامنے ہے۔تروتازہ چہروں کے ساتھ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی بحالی اور مرکزی قیادت کا اعلان کیاگیا۔1973ء کے آئین کے تناظر میں‘ قیادت کا قرعہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے نام نکلا ہے جو بذات خود دیوبندی مکتب فکر کی نمائندہ تصور ہونے والی جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ بھی ہیں۔ ہمیشہ سے کئی کشتیوں کی سوار جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کو جنرل سیکریٹری منتخب کیاگیا۔ ان کی ’جوڑی‘ حضرت مولانا کے ساتھ ’ٹِچ‘ رہے گی۔ مزاج آشنائی ہو تو ’کام‘ چلانے میں آسانی ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے قوم کو متحدہ مجلس عمل کے احیا پر مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا ایم ایم اے کی تمام جماعتیں آج اْسی طرح صف آرا اور متحد ہیں جس طرح 2002 میں متحد تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی میں سب کی حیثیت برابر ہوگی۔ ’بانکے میاں‘ بھائی سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم نئے عزم سے بنیاد ِسحر رکھ رہے ہیں اور آج ایم ایم اے کا گلدستہ قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ایم ایم اے ایک پرچم تلے الیکشن لڑے گی۔ تمام جماعتوں کی ایم ایم اے میں نمائندگی برابری کی بنیاد پر ہے۔ اتفاق رائے سے فیصلے ہوں گے۔ دیگر عہدیداروں میں جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر نائب صدور، جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل شاہ اویس نورانی سیکرٹری اطلاعات، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری، جمعیت علمائے پاکستان کے محمد خان لغاری، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے شفیق پسروری اور اسلامی تحریک پاکستان کے علامہ عارف حسین وحیدی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کے علامہ شبیر میثمی مرکزی سیکرٹری مالیات ہوں گے۔ ان کی سربراہی میں مالیات کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جبکہ پروفیسر علامہ ساجد میر کی سربراہی میں منشور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
لیاقت بلوچ نے اپریل کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں مرکزی کنونشن کے انعقاد کا بھی اعلان کیا ہے۔ منشور اور آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان اسی کنونشن میں سامنے آئے گا۔
ایم ایم اے مذہبی وسیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد نے صوبوں اور اضلاع میں تنظیم سازی کی بات کرنے کے علاوہ ملک میں نئی طرزکی سیاست کا آغازکرنے کا دعویٰ کیا۔ قوم کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے ایک بار پھر وعدے دہرائے۔ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کی صورتحال کا رونا روکر امت مسلمہ کی آواز بننے کا ’بھاری پتھر‘ اٹھانے کا عزم دہرایا۔ ’سودی معیشت‘ بھی ہمارے قائدین کو ایک بارپھر یاد آ گئی ہے اور انہیں ایک بار پھر برس ہا برس بعد خیال آ گیا کہ سود نے پورے معاشی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔
البتہ کوشش کے باوجود ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فیصلہ سازی کے ’میکانزم‘ یا ’طریقہ کار‘ میں وہ کیا جوہری تبدیلی لائی گئی ہے کہ جس سے اس اتحاد کے سابقہ ’انجام‘ سے دوچار ہونے کا کوئی خدشہ نہ رہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ موجودہ ایم ایم اے ’مرحوم‘ ایم ایم اے سے کہیں زیادہ کمزور وجود کی حامل ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس ’اتحاد‘ کا انجام نون لیگ کی حمایت ہوگا؟ تشکیل کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں۔ ڈیزل کے طعنہ سے موسوم کرنے والے کے نزدیک اس ’قیادت‘ سے خیر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں بسیرا کرنے کے مترادف ہے۔ وہ صرف اچھے اجتماعی سودا کار ایجنٹ (سی بی اے) ہیں۔ بانکے میاں جب تک سنبھلیں گے، اس وقت تک قافلہ بہت دور نکل چکا ہوگا۔ ایم ایم اے کی قیادت سنبھالنے والے حضرت مولانا ’دامت برکاتہم‘ کے تینوں ارکان نے سینٹ کے الیکشن میں نون لیگ کو ووٹ نہیں دئیے؟ علامہ ساجد میر بھی اس اتحاد میں رونق افروز ہیں۔ ان کے ہوتے میاں نوازشریف کے مفادات پر زد پڑے‘ ایسا نہیں ہوسکتا ہے؟
تحریک اسلامی کے بانی مولانا نعیم صدیقی کی تجویز پر بننے والے ایم ایم اے کے پہلے صدر مرحوم ومغفور قاضی حسین احمد تھے۔ جو پزیرائی ان کے ہوتے ہوئے اس اتحاد کو مل چکی ہے، شاید ہی اب اس کونصیب ہو۔ قاضی حسین احمد کی شخصیت، کردار اور راست گوئی بہرحال موجودہ قیادت سے موازنہ کے کسی درجے میں ’پوری‘ نہیں اترتی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو جذباتی قرار دیا جاتا تھا۔ ان کے غیر سیاسی فیصلوں پر تنقید ہوتی رہی۔ ان کو سیاسی طور پر استعمال کرلینے کے طعنے بھی انہیں سننے پڑے لیکن یہ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ان کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ ان کے اْجلی شخصیت احترام کے قرینوں سے سجی سنوری تھی۔
2002 میں اس اتحاد کی تشکیل کے وقت منظرنامہ یوں تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ امریکہ افغانستان پر آگ و آہن کی بارش کر رہا تھا۔ پاکستان سمیت پوری امت اسلامیہ میں عوام اس پر پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ افغانستان میں ہونے والے واقعات اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں جو اثرات مرتب ہوئے، اس نے عمومی پاکستانی مزاج میں آگ لگا رکھی تھی۔ مدارس پر بمباری اور ’کولیٹرل ڈیمیج‘ کی ’واہیات اصطلاح‘ میں اپنا جرم چھپانے والوں کے خلاف عوامی رائے منفی درجہ حرات کی تمام حدود سے آگے نکل چکی تھی۔ ایسے میں قاضی حسین احمد کی روشن پیشانی میں سجنے والے اتحاد پر بالخصوص خیبر پختونخوا کے عوام نے لبیک کہا۔ ’کتاب‘ کا نشان ’قرآن پاک‘ بنا دیا گیا اور عوام نے سرتسلیم خم کر دیا۔ پھر کیا ہوا؟ تحریک انصاف کی طرح کیا تبدیلی اس خطہ وفا شعار کے عوام کے حق میں آئی۔ وہ کہانی ہے۔ ہر راوی اپنی سہولت، وابستگی اور مفاد کو دیکھ کر بیان کرتا ہے۔ سننے والے بھی سن لیتے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرح ایم ایم اے کا دور بھی عوام نے دیکھ لیا۔ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والا کارٹون مجھے نہیں بھولتا۔ مشرف کی وردی اتارنے میں ناکامی پر سکول کے بچوں کا ’یونیفارم‘ تبدیل کرانے کا طنز کارٹونسٹ نے اپنی مہارت سے متشکل کیا تھا۔ سراج الحق اس وقت موٹر سائیکل پر پھرتے تھے۔ اب ان کے انداز سینیٹرانہ ہو چکے ہیں۔ اْس ایم ایم اے کا بلوچستان میں حکومت قائم کرنے میں اتحادی مسلم لیگ (ق) تھی۔ جی ہاں۔ وہی ق لیگ جو پرویز مشرف کی سب سے بڑی، بنیادی اور اصل اتحادی تھی۔
آج کا منظرنامہ کیا ہے۔ حضرت مولانا جناب زرداری کی ’بھاری شخصیت‘ کی نیاز سمیٹنے کے بعد گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے جاتی امراء سے رشتہ انکسار میں وابستہ چلے آتے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ وہی ہے جو نوازشریف کا ہے۔ عدلیہ اور فوج کو دشنام دینے میں الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ انداز ذرا تبدیل ہے لیکن رْخ وہی ہے۔ انداز بیاں کی تبدیلی اپنی جگہ لیکن عزائم اور مقاصد کے ساتھ ساتھ سیاسی بیانیہ بھی وہی ہے۔ عوام کے حق حکمرانی کی بات وہ بعینہ اسی انداز میں دہراتے ہیں جو میاں نوازشریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے طور پر بلند کرتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کے پرچارک جناب حسین احمد مدنی کے روحانی وارث ہیں۔
خلوص اور عمل کی قوت سے محروم کوئی اتحاد کتنا ہی بڑا کیوں نہ بن جائے۔ عوام کے دل میں گھر نہیں کر سکتا۔ کاش ہمارے قائدین بننے کے شوق میں غلطاں افراد اپنے دل و ذہن میں ایک ’جھاتی‘ مار لیں۔ اندر چھان لیں تو باہر خود ہی تبدیلی آجائے گی۔ ورنہ اس کوشش کو فریب کہتے ہیں۔ خواہ خود کو دیں یا پھر قوم کو ’فریب سیراب کی مانند ہوتا ہے جو اپنے شکار کو تڑپا تڑپا کر بھوکا پیاسا مار دیتا ہے۔