اسلام آباد (نامہ نگار) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی( پی اے سی )نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے )کی جانب سے سیکٹر I-11، I-12، I-14 اور I-15کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے غیر تسلی بخش جواب پر مزید تحقیقات کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی ہے،کمیٹی وفاقی دارالحکومت کی زوننگ سمیت ترقیاتی کاموں کے حوالے سے مالیاتی ذرائع ، مستقبل کی منصوبہ بندی، بنی گالہ اور بارہ کہو کوقانونی دائرہ کار میں لانے، پانی کے مسئلے، زمینوں پر قبضے اور مساجد کے ساتھ مدارس کی غیر قانونی تعمیر کے حوالے سے تحقیقات سمیت ناجائز تجاوزات کے حوالے سے 20روز میں رپورٹ مرتب کرے گی،کمیٹی میں چیئرمین سی ڈی اے نے دوران بریفنگ تسلیم کیا کہ کمزور مالیاتی نظام کے باعث ادارے میں بحران جنم لیتے ہیں،اسلام آباد میں پانی کی طلب 120ملین گیلن روزانہ ہے جبکہ صرف 45ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے ادارہ فعال کردار ادا نہیں کر سکا۔ منگل کو پی اے سی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ چیئرمین سی ڈی اے عثمان اختر باجوہ نے سیکٹر I-12، سیکٹر I-14 اورسیکٹر I-15کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ سید خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا منصوبہ ہے جس کا سروے مکمل ہونے اور سڑکیں تعمیر ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ سروے ہی غلط کیا گیا، کیا اس کی ذمہ داری کسی پر ڈالی گئی۔ چیئرمین سی ڈی اے نے سیکٹر I-15کے حوالے سے بتایا کہ اس کیلئے 2005میں درخواستیں طلب کی گئی تھیں، سیکٹر میں کم آمدنی کے حامل افراد کو پلاٹس دیئے جانے تھے، منصوبہ کیلئے سی ڈی اے نے 1968-69 میں 6 ہزار کنال زمین حاصل کی تھی، اب تک سیکٹر میں 10289پلاٹس بنالئے گئے ہیں، یہ مکمل رہائشی منصوبہ تھا، لوگوں سے درخواستیں اور رقوم موصول ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے، اس کے تحت ایک بلاک میں 16فلیٹس تعمیر کئے جانے تھے، ہر فلیٹ کی قیمت 14لاکھ مقرر کی گئی تھی، ادارے کی جانب سے درخواست گزاروں کو دو آپشنز دیئے گئے کہ یا تو جمع کروائی گئی رقم واپس لے لی جائے یا پھر 5مرلہ کا پلاٹ 11لاکھ میں حاصل کرلیا جائے، 4079لوگوں نے پلاٹس لئے، دیگر افراد نے رقم واپس لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ عجیب منصوبہ بندی ہے 2005میں اسکیم بنائی گئی، لوگوں سے درخواستیں اور رقوم وصول کی گئیں اور بعد ازاں اسے ناقابل عمل قرار دیا گیا، دس سال رقم اپنے پاس رکھی پھر واپس کرنا شروع کر دی۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ادارے کی جانب سے جو پلاٹس لوگوں کو دینے کی بات کی گئی ہے وہ بھی ابھی تک موجود ہی نہیں ہیں، لوگوں سے ترقیاتی کاموں کے نام پر وصول کی جانے والی رقم بھی کہیں اور لگا دی جاتی ہے ،اس کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے۔ کمیٹی رکن شفقت محمود نے کہا کہ اگر منصوبہ قابل عمل نہیں تھا تو اس کا مطلب ہے کہ ابتدائی فیصلہ ہی غلط ہوا، کیا کسی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ فلیٹس بنانے کا اصل منصوبہ درست تھا تاہم ادارے میں اس کو تعمیر کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں تھی، کچھ لوگوں کو رقوم بہت دیر سے ادا کی گئیں، یہ غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں، ہماری ترجیح ہے کہ I-15کو دو سال میں مکمل کریں، تاہم کسی کو ذمہ دار قرار دینے کے حوالے سے انکوائری کا عمل نہیں ہے۔ کمیٹی ارکان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنجیدہ نااہلی ہے اس کی مکمل انکوائری کی ضرورت ہے۔ کمیٹی رکن شفقت محمود نے کہا کہ جس کسی نے بھی اسلام آباد کے ارد گرد رہائشی سکیمیں بنائیں وہ پیسہ کما گئے جبکہ سی ڈی اے سب سے بڑا تعمیراتی ادارہ ہونے کے باوجود بینک کرپسی کا شکار ہو گیا، یہ ادارہ کیسے تباہ ہو رہا ہے۔ کمیٹی رکن شیری رحمان نے کہا کہ اسلام آباد میں ترقیاتی سکیموں کیلئے ٹیوب ویلز کے ذریعے پانی نکالے جانے کی اطلاعات ہیں،یہ تو ہم خشک سالی کی طرف بڑھ رہے ہیں، اسلام آباد میں بھی کیپ ٹائون جیسی صورتحال ہو گی، سیکٹر I-15میں گیس اور بجلی کی فراہمی کیلئے بھی اجازت نامہ آپ کے پاس موجود نہیں ہے، جس پر چیئرمین سی ڈی اے عثمان اختر باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد کو روزانہ 120ملین گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور فی الوقت 40 سے 45 ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے، اسلام آباد کو پانی سملی ڈیم، خانپور ڈیم اور ٹیوب ویلز کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے، اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کیلئے ایک نئے منصوبے پر کام ہو رہا ہے جس کے تحت انڈس سے پانی تربیلا ڈیم میں آئے گا جس کے ذریعے آئندہ دو سال میں شہر کو پانی کی فراہمی 200ملین گیلن ہو جائے گی۔ سی ڈی اے کو انتظامی اخراجات کیلئے سالانہ 10 ارب روپے کی ضرورت ہے جبکہ سی ڈی اے کی سالانہ آمدن 10ارب روپے سے کم ہے۔ کمیٹی رکن سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ شروع میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام آباد صرف امور مملکت چلانے کیلئے آباد کیا گیا ہے نہیں پتہ تھا کہ یہ شہر پھیلتے پھیلتے کہیں جہلم تک پہنچ جائے گا، سی ڈی اے کے ماضی کے قصے کہانیاں خوفناک ہیں اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ انکروچمنٹ ہے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ادارے کا انفورسٹمنٹ ونگ اس حوالے سے مسلسل سروے کرتا رہتا ہے، انکروچمنٹ کو وقت پر ڈیل کیا جائے گا،انکروچمنٹس کے حوالے سے سب سے پہلے سیکٹر ایف سکس میں اقدامات کئے گئے طاقت کا منبع اس سیکٹر میں ہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ بڑوں کے خلاف کامیابی سے کارروائی کریں گے تو غریبوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے میں آسانی ہو گی،انکروچمنٹ کے حوالے سے دیہی علاقوں کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں، بہارہ کہو زون تھری میں واقع ہے جہاں ماسٹر پلان کے مطابق تعمیرات کی اجازت نہیں تھی،زون فور میں بھی کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی اب بھی بنی گالہ کے حوالے سے عمران خان کا مسئلہ عدالت میں چل رہا ہے، اب ان علاقوں میں جو آبادیاں قائم ہو چکی ہیں انہیں گرا نہیں سکتے، حکومت ان تعمیرات کو ریگولرائز کر دے تو اس کے بعد ہم کسی کو بھی نئی تعمیرات نہیں کرنے دیں گے، اسلام آباد انکروچمنٹ کے حوالے سے سیٹلائیٹ کے ذریعے سروے کروایا جائے گا جس کیلئے پنجاب اربن یونٹ سے مدد لی جائے گی،23 مارچ کے بعد سے سیکٹر جی بارہ میں انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن شروع کر رہے ہیں۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ مدارس کیلئے علیحدہ سے پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے تاہم کچھ مساجد نے بذات خود مدارس بھی قائم کرلئے۔ چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے وفاقی دارالحکومت کے معاملے پر سینیٹر شیری رحمان کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنا دی، کمیٹی میں شفقت محمود ،سردار عاشق حسین گوپانگ اور غلام مصطفی شامل ہوں گے، یہ کمیٹی 20 روز میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے گی۔