علامہ منیر احمد یوسفی
جناب ابوطالب کی اولاد میںامیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی سب سے چھوٹے برخودار تھے۔ اُنہوں نے بھی عام ہاشمیوں کی طرح محنت ،طاقت اور مہارت کے مشاغل بھی اِختیار کئے ۔ اُنہوں نے کشتی‘ گھوڑا سواری‘ نیزہ بازی اور اِسی وضع کے فنون میں بھی باقاعدہ دلچسپی لی۔اُنہوں نے جب کاشانہ نبوی اور رسول اللہؐ کی سر پرستی پرورش ۔اہلِ مکہ اور کفار نے جب بنی ہاشم کے لوگوں اور حضرت محمدؐ کو شعب ابی طالب میں محصور اور مقید رہنے پر مجبور کر رکھا تھا تو‘ اُس وقت بھی مسلمانوں پر یہ بڑا کھٹن اور مشکل وقت تھا ۔ شعب ابی طالب میں حضور نبی کریمؐ اور آپؐ کے جاں نثار ساتھیوں کا جبری قیام سب کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا ۔ مسلمان آلام اور مصائب برداشت کرنے کے خوگر بن گئے اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ اور قریب قریب رہ کر ایک دوسرے سے زیادہ اُلفت اور محبت پیدا ہوئی۔شعب ابی طالب میں محصوری کے وقت تمام مسلمانوں میں امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ ہی سب سے نوجوان تھے ۔امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالبؓ کو بہادری اور شجاعت کے ساتھ ساتھ متعددکئی اَوصاف موروثی طور پر والدِ محترم جناب ابو طالب سے ملے۔ جناب ابو طالب خود بہت بڑے خطیب اور شاعر تھے ۔ بڑے معاملہ فہم اور نقطہ رس تھے ایک تاجر کے اُن میں تمام اَوصاف موجود تھے۔ بہادری اور شجاعت میں بھی بے مثال تھے ۔
شب ہجرت جب اللہ کے رسول ؐنے ۱۲ ربیع الاوّل۶۲۲ ئ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو پورے اعتماد‘ ذمے داری اور وثوق کے ساتھ ا میر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ کو اپنے بستر پر سلا گئے۔ اُنہیں اللہ کے رسول ؐنے اپنی زبان مبارک سے یہ یقین دِلا رکھا تھا کہ اُنہیں اِسلام کا کوئی دشمن کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کفار قریش گھات میں لگے ہوئے وہ تلواریں لیے دروازے پر کھڑے ہیں اور امیر المؤمنین حضرت سیّدناعلی اُس نازک وقت میں بھی حضور نبی کریم ؐ کے بسترپر آپؐ کی سبز چادر اَوڑھے بے خوف و خطر سوتے رہے اس کے بعد اُنہوںنے مکہ مکرمہ کے لوگو ں کی اَمانتیں جو نبی کریم ؐ کے پاس رکھی ہوئی تھی اہلِ اَمانت کے سپرد کیں۔
پھر ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری بمطابق ۱۳مارچ ۶۲۶ئکو معرکہ حق وباطل واقع ہوا‘ سپہ سالار اعظم عتبہ بن ربیعہ کفار کی جانب سے اپنے دونوں بھائیوں شیبہ اور ولید کو لے کر میدان میںاُترا اور دعو ت مبازرت دی۔ اُن کے مقابلہ میں تین اَنصاری معاذبن حارث‘ عوف بن حارث اور عبداللہ بن ر واحہ نکلے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ یہ مقابلے میں آنے والے اَنصار ہیں تو اُنہوں نے متکبرانہ اَنداز میں کہا کہ ’’تم ہمارے جوڑ کے نہیں ‘‘ اِس کے بعد اُنہوں نے اللہ کے رسول اللہ ؐ سے مخاطب ہو کر کہا ’’اے محمد ؐہمارے مقابلے میں ہماری قوم (قریش )کے ہم سر آدمی بھیجو !اِس پر نبی کریم کے حکم پر امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی نے ولید سے مبارزت کی۔ حضرت حمزہ نے اپنے مد مقابل شیبہ کا کام تمام کر دیا ،حضرت علی ؓنے ولید کو ڈھیر کر دیا‘ حضرت عبیدہؓ اور عتبہ کا مقابلہ برابر رہا‘ لیکن اِس موقعہ پر حضرت سیّدنا علی نے جھپٹ کر حضرت عبیدہ کی بھی مدد کی اور عتبہ کو بھی واصل جہنم کیا۔
حضرت سیّدنا علیؓ کا کردار اِس غزوئہ اُحد میںمثالی تھا۔ وہ آپؓ کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے ساتھیوں میں اِمتیازی مقام رکھتے تھے۔ مسلمان اَبھی غزوہ اُحد سے واپس ہوئے ہی تھے۔ کہ قریش کی جانب سے اِس اَمر کا خدشہ ہوا کہ وہ دوبارہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور اُحد سے لوٹنے والے مسلمانوں پر وہ ایک اور ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ اِس صورت حال کی خبر ہونے پر حضور نبی کریم ؐ مدینہ منورہ سے قریباً آٹھ میل دور حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے۔ اُس وقت بھی لوائے نبوی امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی نے اُٹھا رکھا تھا ،بہر صورت دشمن یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ہونے کے باوجود مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ پس اللہ نے مسلمانوں کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
۶ ہجری میں حضور نبی کریمؐ اپنے پندرہ سو ساتھیوں کے ساتھ عمرہ اور حج بیت اللہ کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اِس قافلہ کے پاس صرف سفری حفاظتی ہتھیارہی تھے۔ اِس قافلے کی روانگی کی جب اہل قریش کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے اِس قافلے کو روکنے کی قسمیں کھائیں۔ اُس وقت نبی کریمؐ اپنی اُونٹنی قصوہ پر سوار تھے۔ آپ ؐکے ساتھ ساتھ حضرت ابو بکرؓ ‘ حضرت عمرؓ‘ حضرت عثمانؓ ‘ حضرت علیؓ ‘ حضرت بلالؓ اور بدر اُحد اور جنگ خندق کے ساتھی مجاہدین بھی ساتھ تھے۔ عین ممکن تھا کہ جب مسلمان مکہ مکرمہ میں پہنچے تو اُس وقت اہل قریش مشتعل ہو کر فساد پیدا کرتے اِس لیے دونوں فریقین کی خواہش کے مطابق ایک معاہدہ اَمن طے پایا گیا۔ جونہی اِس معاہدہ کی شرائط طے پائی گئیں۔ اُسے تحریری صورت میں لانے کا وقت آیا تو اللہ کے رسولؐ نے حضرت سیّدنا علی ابن ابی طالب کو معاہدہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔ پھر آپ نے سہیل بن عمرو کی موجودگی میں معاہدہ لکھوانا شروع کیا۔ گویامعاہدہ عربوں کے عام رواج اور فریقین کے معروف ناموں کے ساتھ ہی تحریر کیا گیا۔ اِ س معاہدے کے تحت دس سال کے لیے جنگ نہ کرنا تسلیم کر لیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی جانب سے اِس معاہدے پر حضورنبی کریم ؐ کے بعد گواہوں کے طور پر حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت ابو بکرؓ نے دستخط کیے اِس معاہدے کے آخر میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ معاہدہ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب نے تحریر کیا ہے۔
۷ ہجری میں سولہ سو مجاہدین کی فوج خیبر کی طرف روانہ ہوئی ،غزوئہ خیبر کی کئی اعتبار سے زیادہ اَہمیت اور تاریخی حیثیت ہے۔ خیبر کو یہودیوں نے ایک مضبوط قلعہ نما بستی کا روپ دے رکھا تھا۔ یہاں پر متعدد فوجی قلعے تھے۔ اور پھر ہر قلعے کے ساتھ کئی ضمنی حفاظتی قلعے بھی موجود تھے۔ اِن قلعوں میں وہاں پر وافراسلحہ اور جنگی سازو سامان بھی بر وقت حاضر رہتا تھا۔ ویسے بھی اِن علاقوں کے یہودی دیگر اَقوام کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور منظّم تھے خیبر میں صرف اِسی وادی کے یہودی نہیں تھے بلکہ مدینہ منورہ کے گردونواح سے یہودی میثاق مدینہ منورہ سے بھاگ گئے تھے ۔ وہ بھی خیبر ہی میں آکر آباد ہو چکے تھے۔ اِس لیے اُن لوگوںکی جنگی قوت دو چند ہو چکی تھی۔ مدینہ منورہ میں اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے کفار کے بعد یہودی ہی سب سے بڑے دشمن اور مستقل خطرہ تھے۔ اور اِن یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ وادیٔ خیبر ہی تھی۔ اِس اِعتبار سے یہودیوں پر قابو پانا مسلمانوں کے لیے ناگزیر اَمر تھا۔ لہٰذا خیبر کے یہودیوں پر مسلمانوں کے غلبہ اور تسلط میں حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب ؓ کا کردار سب سے اَہم ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے اِس جنگ میں اپنی بہادری‘ قوت‘ بے جگری اور والہانہ دینی وابستگی کا اِظہار فرماتے ہوئے یہودیوں کے قلعوں کو فتح کیا تھا‘ حضرت علی کو خیبر شکن کا خطاب بھی دیا جاتا ہے۔
رسولِ اکرم نے اپنی زندگی میں سینتالیس سرایا اور ستائیس غزوات میں حصّہ لیا۔ بتا یا جاتا ہے، حضرت سیّدنا علیؓنے بیشتر غزوات میں بھرپور حصّہ لیا اور نہایت فعال اور مثالی کردار ادا کیا ۔ بلکہ بعض بڑے غزوات میں حضرت سیّدنا علی کا کردار و عمل سب سے زیادہ نمایا ں اور اَہم دِکھائی دیتا ہے۔ سرایا چونکہ اَیسی فوج کشی او رمہم کو کہتے ہیں کہ جس کے رسولِ اکرمؐ نے بذات خود شرکت نہیں کی بلکہ دیگر صحابہ کرامؓ کو روانہ کیا۔ اَٹھارہ غزوات کہ جن میں تلوار کا اِستعمال نہیں ہوا تھا اور نو غزوات جن میں تلوار اِستعمال ہوئی‘ اُن میں قریباًتمام غزوات میںامیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓنے بڑا فعال اور پُر جو ش کردار اَدا کیا۔یہی نہیں بلکہ اکثر غزوات میں حضرت سیّدناعلی کو لوائے نبوی ؐکی علم برداری کا بھی شرف حاصل ہوا۔ کئی غزوات میں حضر ت سیّدنا علی کے سپرد مہاجرین کا چھوٹا جھنڈا بھی کیا گیا ۔ اور جنگ میں علم برداری کا منصب کوئی چھو ٹا منصب نہیں ہوتا ۔
مغازی الرسول میں حضرت سیّدنا علی بن ابی طالبؓ کا کردارو عمل دیگر تمام مجاہدین کے مقابلے میں سب سے زیادہ اعلیٰ اور ممتاز رہا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہر جنگ میں حضرت سیّدنا علی ؓہمیشہ حضورؐکے سب سے قریب رہنے والوں میں سے تھے۔ گویا اُس طرح حضرت سیّدنا علی اُس مرکزی دستے میں شامل رہے کہ جس کے محور و مرکز حضور ؐہوتے تھے۔ غزوات نبوی کے دوران میں بعض اَیسے اَیسے بڑے اور متکبر سور ماؤں کو بھی حضرت علی ؓنے واصل جہنم کیا کہ جو ایک ایک ہزار اَفراد کے برابر تھے اور قوت اور طاقت میں اُن کا ہمسر کوئی نہیں ہوتا تھا‘اِن تما م غزوات میں حضرت علی نے مجموعی طور پر بھی تعداد میں سب سے زیادہ کفار اور دشمنانِ دین کو قتل کیا‘ اِن حوالوں سے حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب کو بجا طور پر مسلمانوں کے بڑے اور کامیاب مجاہد اِسلام کا درجہ دیا جاتا ہے ۔۔۔