’’روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے‘‘

’’روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے‘‘ یہ محاورہ عرصہ دراز سے استعمال ہوتا ہے، کالموں میں موضوع سخن کے طور پر بھی برملا استعمال کر لیا جاتا ہے، کبھی حکمرانوں تو کبھی سرکاری محکموں کی کج ادائیوں پر روم کو جلا کر نیرو سے بانسری بجوا دی جاتی ہے۔ آپ سوچتے ہونگے کہ آج اس محاورے کی کہاں سے یاد آ گئی اور کیا وجہ ہے کہ ابتدائے کالم ہی اسی محاورے سے کیا جا رہا ہے۔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آ گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے چیئرمین لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کتنی اور کس قدر زیادتیاں کیں، جس پر بانی پاکستان اور پاکستان کی بانی و خالق جماعت مسلم لیگ اپنی سیاسی جدوجہد کے ذریعے بالاخر ایسی تمام زیادتیوں کا وقت کے ساتھ ازالہ اور سدباب کرنے کا قوی عزم اور پختہ یقین رکھتے تھے لیکن ہمارے حکمرانوں اور فوجی طالع آزماؤں نے اس قوی عزم اور پختہ یقین کو وقت کے ڈھیروں ملبے تلے ایسے دفن کر دیا کہ آج اندرون ملک ہم اپنے کئی طرح کے مسائل سلگ رہے ہیں۔ پاکستان میں وہ کون سا ایسا مسئلہ ہے جو اپنا وجود نہیں رکھتا؟ غربت، بیروزگاری، ننگ، بھوک، افلاس سے لے کر انصاف کے حصول کی ناکام کوششوں اور جرم کی وادی کے وسیع ہوتے دامن اور وغیرہ وغیرہ، کون سا ایسا مسئلہ اور بحران نہیں جو ہمارے ہاں وجود نہ رکھتا ہو جس کے باعث عوام کے مسائل نہ بڑھتے ہوں، معاشرتی عدم استحکام میں اضافہ نہ ہوتا ہو، معاشی و اقتصادی ناہمواریاں نہ بڑھتی ہوں، جرم کی دلدل میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نہ دھنستی ہو، خودکشیوں کی شرح میں نتیجتاً اضافہ نہ ہوتا ہو، اس طرح کے کئی اور سیرحاصل موضوع جن پر کئی گھنٹوں اور کئی کئی دن تک گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن یہ ہمارے حکمرانوں کا کمال ہے کہ جس طرح بحث میں فلسفی کو کبھی خدا نہیں ملتا ایسے ہی ہمارے حکمران اقتدار کے ایوانوں اور قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھ کر ان مسائل کے حل تلاش کرنے میں متواتر ناکام ہیں۔ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے اس محاورے کی آج ایک مرتبہ پھر اس لئے یاد ستاتی ہے کہ ہمارے ملک میں جس طرح کے مسائل اور بحران موجود ہیں اور جیساکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کون سا ایسا مسئلہ اور بحران نہیں جو پاکستان میں موجود نہ ہو تو ایسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے درمیان ایک دوسرے پر بھڑک بازی اور ہماری سیاست کو آخری گند تک لے جانیوالی ’’سیاسی اور جمہوری‘‘ روش کو اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ بلاول کئی جملوں کی کاٹ اور تیکھے پن کو اپنی چھٹی حس کے ذریعے آزما کر قتل کی دھمکیوں کا نام دے چکے ہیں۔ شیخ رشید احمد بھی میدان خالی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں اور اس پر خوب گرج برس رہے ہیں۔ ایسے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جمہوریت کا ’’حسن‘‘ آج اس نہج پر آن پہنچا ہے کہ ہم روم جلے کوئی پرواہ نہیں اور جیسے ہی کوئی نیرو بانسری بجائے تو اس پر جوگی کی بین کی طرح اپنی بلوں سے باہر نکل کر کان دھرنے لگتے ہیں اور اسی بین کے پیچھے رینگتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ویسے تو سالہاسال پرانا ہے مگر اس کو چار چاند الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے لگا دیئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری پوری قوم اور سوشل میڈیا پر موجود پڑھے لکھے طبقے کے پاس شاید کسی ایک ناخدا کا دفاع کرنے اور دوسروں کے ناخداؤں کے بت اپنے لفظوں اور اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ سوال ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری اور شیخ رشید احمد کی گفتگو اس قابل ہے کہ اس پر کان دھر کے یا گھنٹوں تبصرے، تجزیے کر کے عوامی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں؟ ملک کے بحران حل ہو سکتے ہیں؟ ملک کی ایک بڑی اکثریت جو کبھی تھر، کبھی جنوبی پنجاب، کبھی اندرون سندھ اور کبھی صوبہ خیبر پی کے کے دورافتادہ بالائی علاقوں میں غربت، افلاس، ننگ اور طرح طرح کے امراض پھوٹنے پر درجنو ںکے حساب سے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، انکے مسائل ان دونوں ’’دیدہ وروں‘‘ کی گفتگو اور سیاسی جنگ سے حل ہو سکتے ہیں، اگر اس سوال کا جواب ہمارے دانشوروں کی ڈکشنری میں ہاں ہے تو پھر ایسے دانشوروں اور اس قوم کو جو کہ ایسے لوگوں کو دانشور کہتے ہیں ان کی عقل، جہاندیدگی کو سلام پیش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔! کیونکہ انکی ایسی گفتگو جو کبھی یہ کرتے تو کبھی کوئی اور کرتا ہے اس سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ ملک کے بحران ختم نہیں ہو رہے۔ کل 23مارچ یوم قرارداد پاکستان ہے اس موقع پر ہی ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے روم کو جلانے والوں سے جان چھڑانی ہے یانیرو کی بانسری پر اسی طرح اپنے بلوں سے باہر نکل کر رینگتے رہنا ہے۔ عوام ایک متحدہ قوم ہو سکتی ہے اگر اسی طرح ہجوم رہے تو اسے حکمران اور سیاسی سنیاسی رعایا کا درجہ ہی دیا کرتے ہیں۔ 23مارچ 1940ء کو برصغیر میں ایک قوم ابھری تھی، اس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور پھر شیربنگال اے کے فضل حق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد قرارداد پاکستان کہلوائی جسے قرارداد لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ ’’روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے‘‘ اب اس میں فرق اور عقل کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن