کرونا، کچھ خدشے کچھ مشورے!

گزشتہ روز وزیر اعظم صاحب نے بتایا کہ حکومت پڑوسی ممالک میں کرونا کی صورتحال سے غافل نہیں تھی اور کرونا کے سلسلے میں حکومت نے اپنا پہلا اجلاس جنوری کے وسط میں منعقد کیا تھا۔ یہ نہیں بتایا گیاکہ اس اجلاس اور اسکے بعد ہونے والے اجلاسوں میں کیا فیصلے کیے گئے کیونکہ اگر حکومت اس آفت کے لیے جنوری کے وسط سے تیاری کر رہی ہے تو جو کچھ اب بتایا جا رہا ہے کہ ماسک، کٹس اور وینٹیلیٹرز خریدے جا رہے ہیں، یہ سب اسی وقت کر لیا جانا چاہئیے تھا۔بہر حال اب اس بحث میں پڑنے کا نہ تو وقت ہے اور نہ فائدہ کہ کیا تیاری کی گئی تھی، سرحدی راستوں پر انتظامات کیسے تھے اور کیا کچھ کیا جا سکتا تھا جو کہ نہ کیا گیا کیونکہ بدقسمتی سے کرونا پاکستان میں پنجے گاڑ چکا ہے اور ہم بظاہر ( خدانخواستہ) ’’کمیونیٹی ٹرانسمیشن‘‘ کی فیز میں داخل ہو چکے ہیں۔
بہر کیف امید ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں ابتک تیاری اور منصوبہ بندی کر لی ہو گی۔ خاص طور پر ’’وینٹی لیٹرز ‘‘ کے بارے میں ، بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار کے قریب خریدے جا رہے ہیں۔ کیونکہ صرف وینٹی لیٹر خرید لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اگر وینٹی لیٹر آ بھی جائے اور بالفرض ہسپتال میں پڑا ہوا ہو ، تو بھی اسکا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسکو استعمال سے پہلے باقائدہ ’’ انسٹال‘‘ کرنا پڑتا ہے اور اسکے لیے آکسیجن اور نائیٹروجن گیس کی مسلسل سپلائی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے’’ میڈیکل گیس‘‘ کی سپلائی کی لائینیں بچھانا پڑتی ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ سب محکمہ صحت کے علم میں ہو گا ہی اور انہوں نے اب تک فیصلہ کر کے کہ کتنے وینٹی لیٹر کہاں کہاں نصب کرنے ہیں وہاں پر تعمیراتی کام شروع یا مکمل کر لیے ہونگے۔ اسی طرح جہاں بھی وینٹی لیٹر استعمال ہونگے وہاں ’’بلڈ گیسز‘‘ کی مشینیوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ بار بار بلڈ گیسز کا ٹیسٹ کر کے اسکے مطابق وینٹی لیٹر کی سیٹنگ کی جاتی ہے۔ اسکے بعد سب سے اہم ضرورت افرادی قوت کی ہے۔ وینٹی لیٹر کے ساتھ تربیت یافتہ ڈاکٹرز اور سٹاف نرسز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر موجودہ ہنگامی حالات کے پیش نظر پانچ وینٹی لیٹرز پر ایک سٹاف نرس بھی تعینات ہو تو ایک ہزار وینٹی لیٹروں پر مارننگ ، ایوننگ اور نائیٹ، تین شفٹوں پر کام کرنے کے لیے کم و بیش چھ سو تربیت یافتہ سٹاف نرسوں کی ضرورت ہوگی۔ اسی طرح اگر بیس پچیس ونیٹی لیٹروں پر ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر بھی تعینات ہو تو بھی کم از کم سو ڈیڑھ سو کے قریب ایسے ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی جو وینٹی لیٹر آپریٹ کرنے کا کچھ نہ کچھ تجربہ رکھتے ہوں۔ اس افرادی قوت کے بغیر یہ وینٹی لیٹر کسی کام کے نہیں۔ امید ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں بھی اب تک پلاننگ کر لی ہو گی اور عملہ کی تربیت شروع کر دی گئی ہو گی۔ اگر نہیں تو فوری طور پر اور جنگی بنیادوں پر اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اچھی منصوبہ بندی اور ہمت سے کام لیا جائے تو یہ ناممکن نہیں ۔ دو قسم کے ڈاکٹر وں کی کھیپ موجود ہے جو وینٹی لیٹروں کو چلانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ ایک انیستھیزیا کے ڈاکٹر اور دوسرا جہاں جہاں دل کی سرجری ہو رہی ہے، وہاں کارڈیک آئی سی یو کے ڈاکٹروں کو اسکا تجربہ ہوتاہے۔ موجودہ حالات میں جب تقریباََ تمام ہسپتالوں میں الیکٹیو آپریشن (Eective Surgery) بند ہیں اور کم سے کم آپریشن ہو رہے ہیں، انیستھیزیا کے کافی سارے ڈاکٹر اس وقت اپنے اپنے یونٹوں میں زیادہ مصروف نہیں ہونگے۔ ایسی تمام جگہوں پر جہاں آنے والے وینٹی لیٹر نصب کرنے ہیں وہاں پر ان ڈاکٹروں اور سٹاف نرسوں کی عارضی تعیناتی کی جانی چاہئیے تاوقت کہ وہ ان جگہوں پر مستقل تعینات عملے کو کچھ نہ کچھ بنیادی تربیت دے دیں۔
یہ تحریر رقم کرنے کے وقت تک پاکستان میں کرونا کے ’’ رپوٹڈ مریضوں‘‘ کی تعداد چھ سو سے کم ہے۔ اپنی منصوبہ بندی میں حکومت نے یقیناََ ایک اور رحجان کا خیال رکھا ہو گا جسے سائینسدان آئیس برگ فینامینن (Iceberg Phenomenon) کہتے ہیں جس کے مطابق کسی بھی علاقے میں جب ایسی وبا پھیلتی ہے تو حقیقی متاثرہ افراد کی تعداد ہمیشہ ’’ رپوٹڈ کیسز‘‘ سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کا امکان اور بھی زیادہ ہے کیونکہ اب تک دستیاب وسائل محدود ہونے کی بنا پر کرونا کے ٹیسٹ بہت کم تعداد میں کیے گئے ہیں۔
حکومتی اقدامات اپنی جگہ ۔ ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن سب سے اہم چیز ’’عوامی رویہ‘‘ ہے۔ بد قسمتی سے ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ نہ جانے کیوں عوام کی اکثریت یہ سب مذاق میں لے رہی ہے۔ کرونا کرونا تو ہو رہا ہے لیکن کوئی اپنے گھر میں بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔ سب کا خیال ہے کہ کیونکہ رپوٹڈ کیسز ابھی سینکڑوں میں ہیں اس لیے ابھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ میڈیا( خصوصاََ الیکڑانک) کو بھی صرف ڈرا ڈرا کر سارے پاکستان کو ذہنی اور بلڈ پریشر کا مریض بنانے کی بجائے قوم کو کچھ نہ کچھ ’’ امید‘‘ بھی دینی چاہئیے اور جتنا وقت میڈیا کرونا پر صرف کر رہا ہے اسکا کم از کم آدھا وقت عوام کو یہ سمجھانے میں صرف کیا جانا چاہئیے کہ یہ چھٹیاں نہیں ہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے سکول کالج بند ہیں۔ ان دنوں میں گھومنا پھرنا، رشتے داروں سے ملنا ملانا، کھانے اور پارٹیاں ’’ گنا ہ ‘‘ ہیں۔کوئی بھی ایسا اقدام جو آپکی، آپکے بچوں ، جاننے والوں اور آپکے ارد گرد کے لوگوں کی صحت اور زندگی کے لیے خطرنا ک ہو اسے میں تو ’’ گناہ‘‘ بلکہ گناہ کبیرہ ہی کہوں گا۔ ضرورت ڈرنے کی نہیںبلکہ لڑنے اور احتیاط کرنے کی ہے۔اسی طرح سارا زور ’’ ہینڈ سینی ٹائیزر‘‘ پر لگا ہواہے اور پبلک اصلی نقلی ہینڈ سینی ٹائیزر مہنگے داموں خرید کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی ہے۔ اگر پانی موجود ہو تو ہاتھوں کو پانی اور صابن سے دھونے سے بہتر کوئی بچائو نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو یہ سمجھانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ اگر پانی میسر ہو تو سینی ٹائیزر کی بجائے ہاتھوںکو اچھی طرح سے دھوئیں۔یہ سستا بھی ہے اور زیادہ موئثر بھی۔ایک اور پالیسی جس پر میرے خیال میں حکومت کو نظر ثانی کر لینی چاہئیے وہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز کا قیام کے بارے میں ہے ۔ تکنیکی طور پر جو ضروریات آئیسولیشن وارڈز میں ہونی چاہئیں وہ تمام ظاہر ہے کہ اب فوری طور پر ممکن نہیں۔ لیکن جہاں تک ہو سکے پہلے سے موجود بڑے ہسپتالوں کے وسط میںکوئی وارڈ خالی کروا کر آئیسولیشن وارڈ قائم کرنے کی بجائے زیادہ بہتر ہو گا کہ ان ہسپتالوں سے باہر ، بلکہ زیادہ آبادی سے ذرا فاصلے پر کچھ بلڈنگز دیکھ کر وہاں یہ سنٹر قائم کئے جائیں ۔ یا پھر کچھ ہسپتالوں کو صرف اس کام کے لیے مختص کر لیا جائے۔ یہ ہسپتالوں میں آنے والے دوسرے مریضوں اور عوا م کے لیے زیادہ محفوظ ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن