ان سب باتوں کے باوصف،ان کو سندھ میں اپنی کارکردگی ہر صورت بہتر کرنی ہوگی اور تھرپارکر میں غذائی قلت کا حل سب سے پہلے نکالنا ہوگا۔ورنہ ان کے جمہوریت کے خالی نعرے کوئی نہیں سنے گا۔ان کا بعد ازاں پریس کلب میں خطاب ایک منجھے ہوے سیاست دان کا سا لگا۔انہوں نے بجاطور پر کہا کہ، آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ،چاہے کے پی کے یا بلوچستان کے عوام یا رہنمائوں کا ہو یا فاٹا کا۔جیسے افراد کے بنیادی حقوق اٹل ہیں ،اسی طرح ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔اس لیے بلاول کا یہ ،کہنا کہ نواز شریف صرف عمران خان کی انا کی وجہ سے باہر بھیجے گئے ہیںنہ کہ کرپشن کی وجہ سے،ظاہر کرتا ہے کہ وہ، پاکستانی سیاست کے رموزاور اسٹیبلشمنٹ کے اثر و طاقت سے ہم سے زیادہ واقف ہوں گے ۔
شائد وہ بخوبی ،اور ہم سے زیادہ جانتے ہوں گے اکیلے عمران خان کی کتنی حیثیت ہوگی،اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر وہ ،اتنے بڑے فیصلے اکیلے نہیں کرسکتے۔ بلاول کو ہم سے زیادہ پتہ ہوگا کہ بھٹو نے جیل سے ’’اف آی ایم اسسینیٹڈ‘‘ کے علاوہ ایک اور کتاب بھی لکھی تھی اور اسکا نام ،میتھ اینڈ ریلاٹی تھا۔جس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے اور اسمیں انہوں نے کہا تھا کہ تیسری دنیا میں جمہوریتیں حقیقت میں اتنی طاقتور نہیں ہوتی ،جووہ نظر آتی ہیں اور اکثر ان کو اہم معاملات اور خفیہ معلومات کا پتہ تک بھی نہیں ہوتا ،چہ جائے کہ وہ ان کا تدارک کر سکیں ۔قارئین کرام کو شائد علم نہیں کے یہ کتاب مارکیٹ میںکبھی بھی عوام کو پڑھائی کے لیے نہیں مل سکی اور شائد مسٹر بلاول کی پارٹی کے دور اقتدار میں بھی اس کو عوام نہ پڑھ سکے۔ یا شائد اسکی اجازت نہ ملی ہو۔ امریکا میں بھی کلاسیفائڈ انفارمیشن ، چاہے کینیڈی کا قتل وغیرہ ، قومی یا بین الاقوامی واقعہ کئی محکموں کی چھلنی سے ہوکر گزرتا ہے۔کیا تمام مغربی ملکوں کے سربراہوںکی جاسوسی کی خبریں عام زبان زد عام نہیں ہیں۔جس پر صدر اوباما کو بظاہر معذرت کرنا پڑی۔لیکن میرے خیال میں ،وہاں انسانی بنیادی حقوق کو تلف نہیں کیا جاتا۔اور ہر آزادی اور خودمختاری سے رہتاہے۔ اور ،اسی لیے نہ بغاوت یا منفی ،انتقامی سوچ نہیں رکھتا۔کیونکہ جب انہیں انصاف مل جاتا ہے،تو غلط یا منفی سوچ پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ،کامیابی اسی کو کہیں گے جس کوعوام پذیرائی دیں اور عوام اسی کو پسند کرتے ہیں جو ان کو انصاف ،تحفظ ،امن اور سکون کے ساتھ عزت اور وقار کا احساس دلائے۔سب سے پہلے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کسی حکومت کی اولین ترجیح ہونا ضروری ہے۔کرپشن، سفارش،لاقانونیت دنیا کا ہرفرد ناپسند کرتاہے۔جب لوگوں کو ہسپتالوں میں بیڈ،دوائی،سٹریچر تو ایک طرف،گورنمنٹ کے کسی ہسپتال میں کسی ایک سہولت کا بھی یقین نہ ہو ،تو وہ لامحالہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرف مجبوری میں دوڑیں گے ۔یہ حقیقت ہے کہ آج صرف غریب آدمی گورنمنٹ ہسپتالوں میں جارہا ہے۔اسی طرح، تھانے بھی غریبوں سے آباد ہیں۔ ٹریفک چالان،ٹیکس بھی زیادہ تر درمیانہ یا غریب طبقہ دے رہاہے۔عدالتیں اور ہتھکڑیاں بھی آپ کچہریوں میں جا کر دیکھیں،زیادہ تر غریبوں سے آبادہیں۔چاہے تھرپارکر کے فاقہ زدہ لوگ ، چاہے پنجاب کی اکثریت یا کسی اور صوبے کے عوام،سب غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔اس لیے ان کو کسی حکومت سے نہیں،بلکہ اپنے پیٹ پورا کرنے کی دن رات فکر رہتی ہے۔پانی،بجلی، سوئی گیس کے بل اور آٹے اور چینی اور سبزیوں کے ریٹ سے وہ گھبراگئے ہیں۔مزدور،کسان جو تقریباً اسی فیصد تک شائد ہوں گے،انتہائی کسمپرسی کا شکارہیں اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ ستر سالہ سسٹم اپنی موت مرا چاہتا ہے جبکہ اردگرد کی ہر نظر آنے چیز یا نظام ہر روز زوال کی طرف جا رہا ہے۔ایسے میںکوئی بھی انہونی متوقع ہے۔ایسے میں بلاول کی سندھ حکومت کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان اٹھ رہاہے جو کچرے تک کو اٹھا نہیں پا رہی،چہ جائیکہ صوبے کے مسائل حل کر سکے۔
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالہ جرس کارواںرہے
………………… (ختم شد)