مادرِ جمہوریت ۔جدوجہد کی درخشاں مثال

مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو ایک نڈر ،بے باک، جرأت مند، بہادر سیاسی راہنما ،اعلیٰ سماجی شخصیت او رشفیق خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ان کے یومِ ولادت پر انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ا پنے گردوپیش محبوب رہنمائوں کو نہ پا کر ان کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو کر دوسرے جہاں چلے گئے ہیں۔ اپنے پیچھے یادوں کے انمٹ نقوش ان کی یادوں میں رہتے ہیں وہ ہمارے درمیان نہ ہو کر بھی آس پاس موجود ہوتے ہیں۔ دلوں اور خیالوں کی دنیا میں زندہ رہتے ہیں۔ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو ایسی خوش نصیب راہنما ہیں جن کی یاد کی خوشبو ان کے عقیدت مندوں کو معطر رکھتی ہے۔ ان کی شخصیت کا یہی اعجاز ہے کہ پی پی پی کے کارکن بیگم صاحبہ کی بے پناہ خدمات کی بدولت ان کی سالگرہ احترام سے مناتے ہیں۔ ۲۳ مارچ ان کا یومِ ولادت ہے یوم پاکستان کی مبارک تاریخ کو بیگم صاحبہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ یہ ان کی سیاسی و شخصی عظمت کو اجاگر کرتا ہے خصوصاً خواتین کے حقوق کے ضمن میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
۴۵ برس قبل میکسیکو میں خواتین کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ بیگم صاحبہ نے اس کانفرنس میں پاکستانی خواتین کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے انہیں عالمی سطح پر متعارف کرایا اور ان کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس کے اعتراف میں بیگم صاحبہ کو عالمی کانفرنس کا وائس چیئرمین منتخب کیا گیا جو پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کا شاندار کردار تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
۱۹۷۵ء میں میکسیکو میں ہونے والی اس کانفرنس کے بارے میں بیگم صاحبہ نے ایک ملاقات میں مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ وہاں بھارتی وفد کی رکن ایک خاتون نے ہمارے وفد کی ایک لڑکی سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ’’پاکستانی!‘‘ پاکستانی لڑکی کا جواب تھا۔ بھارتی رکن نے وضاحت چاہی کہ پاکستان کے کس حصے سے تعلق ہے۔ ’’پاکستان سے‘ ‘ لڑکی نے جواب دیا۔بھارتی رکن نے پھر سے سوال دہرایا۔ دراصل وہ یہ جانتا چاہتی تھی کہ یہ لڑکی پٹھان ہے، بلوچی ہے، پنجابی ، یا سندھی۔ لیکن اسکے بارے میں ہماری لڑکی نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔ ’’میں پاکستانی ہوں!‘‘
اس کا یہ جواب سن کر مجھے جو مسرت ہوئی اس کا اظہار بیان سے باہر ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ نئی نسل کی سوچ یہی ہونی چاہیے کہ وہ پاکستانی ہیں اور پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ سیاست میں خواتین کے کردار کے بارے میں مادرِ جمہوریت کا یہ واضح نقطہ نظر تھا کہ خواتین نے پیپلزپارٹی کے پرچم تلے پہلی مرتبہ آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں عورتوں نے لاٹھیاں کھائیں، جیلیں کاٹیں، پاکستانی معاشرے میں عورت سب سے مظلوم رہی ہے۔ بیگم صاحبہ پیپلزپارٹی کی سوچ کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی کے سیاسی کردار کو بڑھنا چاہتی تھیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بتایا تھا جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے کہ میں عملاً سماجی کارکن ہوں اور خود کو سماجی کاموں تک محدود رکھتی ہوں اور سماجی کاموں میں میری کارکردگی بھٹو صاحب کی ممدومعان ثابت ہوتی ہے۔
بیگم نصرت بھٹو کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب کے دور سے شروع ہو کر جنرل ضیاء کے انتہائی سفاکانہ اور جابرانہ دور تک محیط ہے۔ جنرل ایوب نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر جیل میں ڈالا تو بیگم نصرت بھٹو اس کے خلاف میدانِ عمل میں آئیں اور ان کی رہائی کے لیے بھرپور مہم چلائی۔۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے خاتونِ اول کی حیثیت سے عوامی بہبود کے لیے بہت سے فلاحی کام کیے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شعبہ خواتین کو منظم کرکے خواتین میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ شعبہ خواتین کی سربراہ کے طور پر انہوں نے تنظیم سازی کی اور انتخابات کروا کر جمہوریت کی اصل روح اجاگر کی۔ جنرل ضیا ء کے آمرانہ دور حکومت میں بیگم صاحبہ نے یادگار کردار ادا کیا۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں میں جرأت، ہمت کی لَو بجھنے نہیں دی۔ ان کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی جبروتشدد کے باوجود مستحکم ہو کر آمریت کے خلاف سینہ سپر رہیں۔
فوجی آمریت کے اس اذیت ناک عہدِ ستم میں بیگم نصرت بھٹو کو مہلک بیماری لاحق ہوئی۔ فوجی آمر ضیا ء نے علاج کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بیماری کی تشخیص کے باوجود علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی اس صورت میں انہوں نے اپنے اعصاب مضبوط کیے۔ آخرکار عالمی دبائو نے جنرل ضیاء کو مجبور کر دیا اور 22نومبر 1982کو جرمنی کے شہر میونخ پہنچ گئیں۔ملک سے روانگی کے وقت بیگم صاحبہ نے اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا کہ ہمیں سچائی اور صداقت کی راہ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور عوام کی طاقت دوسری تمام طاقتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ جناب آصف علی زرداری کے دورِ حکومت کا یہ خوش آئند اقدام ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا گیا۔ یہ اعزاز ان کی سیاسی ،سماجی ،انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے عظیم الشان جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا جس کی وہ بلاشرکت غیرے مستحق تھیں۔
وطن پرست مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی زندگی انسانی حقوق کی پاسداری، سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور جمہوریت کا تحفظ کرتے ہوئے گزری۔
بیگم نصرت بھٹو غریبوں کی ہمدردی، غمگسار اور شفیق راہنما تھیں ۔ بیگم نصرت بھٹو جمہوریت اور سیاسی جدوجہد کی درخشاں مثال تھیں۔

ای پیپر دی نیشن