جاوید یونس
چین کی دوستی بلاشبہ پاکستان کا عظیم سفارتی ورثہ ہے جس پر ہر پاکستان کو فخر ہے۔چین نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ نبھایا ہے۔ طیارہ سازی سے لے کر تجارتی وثقافتی شعبوں میں وفود کے تبادلوں تک دونوں ممالک کے مابین نا صرف قربتوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ روابط ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت سے آشنائی حاصل کرنے میں بہت ممدومعاون ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین کی محبت اور دوستی لازوال رشتوں میں بندھی ہوئی ہے اور یہ دوستی ہیوی میکنیکل کمپلیکس ٹیکسلا سے ہوتی ہوئی شاہراہ قراقرم کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا،گہرے اور مضبوط برادرانہ تعلقات،باہمی اعتماد،بھروسہ اور عزت کی بنیادوں پر استوار ہیں جن پر بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی اثر انداز نہیں ہو سکیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مزید نکھار پیدا ہوا ہے۔
چینی ہمارے ایسے بھائی ہیں جو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے تمام شعبوں خواہ وہ معاشی شعبہ ہو یا دفاعی ہمارے شانہ بشانہ کام کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ پاک چین دوستی کا دائرہ کار وفاق کی سطح سے آگے بڑھ کر صوبوں تک پھیل گیا ہے جو یقینا ایک مثبت اور خوش کن پہلو ہے جس سے صوبے میں صنعتی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ ترقی وخوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور عوام کا معیار زندگی بلند ہو گا۔زیادہ صنعتیں لگنے سے صوبہ میں مقابلے کا رحجان پیدا ہو گا اور مارکیٹ میں دیرپا اور سستی اشیاء ضروریہ دستیاب ہوں گی۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی 1962کی چین بھارت سرحد جنگ کے بعدپیدا ہوئی۔ بھارت کو اپنا روایتی دشمن سمجھنے والی پاکستانی قیادت نے چین کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے اس خطے میں ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھارنے میں مدد فراہم کی تاکہ بھارتی اثرورسوخ کا راستہ روکا جائے۔ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں کثیر الجہتی تعاون کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غیرمستحکم صورتحال کے باوجود پاک چین دوستی متحرک رہی بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ حالیہ چند برسوں کے دوران چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا رخ موڑ دیا ہے۔ سی پیک کی بدولت پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور یہ پاکستان کی ترقی میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں ہزاروں چینی پاکستان میں مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ حکومت پنجاب نے اپنے چینی بھائیوں کے حفاظت کے لئے ایک علیحدہ پولیس فورس کا پروٹیکشن یونٹ کام کیا ہوا ہے جو چینی ماہرین کی حفاظت پر مامور ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور کئی مشترکہ فوجی اور اقتصادی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ چین اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔اس وقت پاک چینی دوستی کے نغمے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں گونج رہے ہیں اور یہ کہانی محض دوستی کی کہانی نہیں بلکہ یہ دیانت،امانت اور شفافیت کی داستان ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت آئی ہے چین نے ہمیشہ مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے اور چین نے ہمیشہ پاکستان کی طرف کھلے دل کے ساتھ تعاون ہاتھ بڑھایا ہے۔لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ پاک چین دوستی کا شاندار نمونہ ہے۔اکنامک کوریڈور خطے میں مثبت تبدیلیوں کا پیامبر ثابت ہوگا اور شاہراہ معیشت نے پاک چین تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری،شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے اونچی ہے جس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔
زیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے وزیراعلیٰ آفس میں چین کے سفیر نونگ رونگ(Mr.Nong Rong) نے ملاقات کی،جس میں پاک چین تعلقات کے فروغ، چین کے تعاون سے پنجاب میں جاری منصوبوں اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیاگیا-چین کے سفیر نونگ رونگ نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو چین کے دورے کی دعوت بھی دی-ملاقات میں صنعت،زراعت اور ٹیکنیکل ٹریننگ کے شعبوں میں معاونت مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا-چین کے سفیرنے کورونا وبائ پر قابو پانے کے لئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب حکومت کے موثر اقدامات کو سراہا-وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کورونا وباء کے دوران تعاون اور ویکسینیشن کی فراہمی پر چین کی حکومت اورعوام کا شکریہ ادا کیا-وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چین پاکستان کا انتہائی بااعتماد دوست ملک ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں چین کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے دور میں پاک چین معاشی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ سی پیک کے منصوبے پاکستان کی پائیدار ترقی کے سفر میں اہمیت کے حامل ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ پنجاب میں سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار ماحول ہے۔پنجاب حکومت نئے سپیشل اکنامک زونز قائم کر رہی ہے۔ چینی کمپنیاں سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کریں،ہر طرح کی مراعات اور سہولتیں دیں گے۔سماجی شعبوں کی پائیدار ترقی ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔ انہوں نے کہاکہ صنعت،زراعت اورٹیکنیکل ووکیشنل ٹریننگ کے شعبوں میں چین کے تعاون سے مزیداستفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ غربت اور کرپشن کے خاتمے کیلئے چین نے گراں قدر کام کیاہے جسے پوری دنیا سراہتی ہے اوراس ضمن میں چین کے کامیاب ماڈل سے فائدہ اٹھائیں گے- چین کے سفیرنونگ رونگ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیںگے۔سماجی شعبوں کی ترقی کیلئے پنجاب حکومت کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔چین ترقی وخوشحالی کے سفر میں پاکستان کے ساتھ ہے۔ چین مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لئے ہرممکن اقدامات کرے گا۔صنعتی عمل تیز ہونے سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوںگے اور غربت میں بھی کمی ہوگی-
چین کے سفیر نوگ رونگ نے اپنے لاہور کے دورہ کے دوران اورنج لائن میٹروٹرین کے ڈپو ڈیرہ گجراں کا دورہ کیا۔ اورنج لائن میٹروٹرین پاکستان میں مکمل ہونے والا سی پیک کا پہلا پراجیکٹ ہے۔ اس موقع پر نورنکو انٹر نیشنل کی انتظامیہ نے چینی سفیر کا استقبال کیا اور منصوبے کے مختلف شعبوں کا معائنہ بھی کرایا۔ چینی سفیر نے اس منصوبے کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے مقامی تکنیکی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد،ان کی پیشہ وارانہ مہارت پر مسرت کا اظہار کیا۔ چینی سفیر نے سیف سٹی کا بھی دورہ کیا۔انہوں نے سیف سٹی اتھارٹی کے آپریشن اینڈ مانیٹرنگ سنٹر،پکار15اور میڈیا سنٹر کا بھی دورہ کیا۔ سیف سٹی کے اعلی حکام نے چینی سفیر کو تفصیلی بریفنگ دی۔ نونگ رونگ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کی وجہ سے لاہور سمارٹ سٹی بن گیا ہے۔چائنہ کی طرز پر بننے والے لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی سیف سٹی پراجیکٹ لگانے میں تعاون فراہم کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چینی سرمایہ کاری سے پنجاب کی معیشت مزید مضبوط اور مستحکم ہو گی۔ مشترکہ سرمایہ کاری سے برآمدات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور عوام کا معیار زندگی بلند بھی ہو گا۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی خواہش ہے کہ صوبہ پنجاب بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ترقی کرے اور غیرملکی اپنا سرمایہ یہاں لگائیں تاکہ پنجاب کے عوام تمام شعبوں میں ترقی کریں اور جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے صوبے کو خوشحال بنائیں تاکہ ملک واقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط ہو سکے۔
(میگزین رپورٹ)
پاک چین سفارتی تعلقات کے قیام کو 70 سال مکمل ہونے کو ہیں۔ان دوستانہ تعلقات کی70 ویں سالگرہ منانے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کی سطح پر تقریبات بھی جاری ہیں۔اس حوالے سے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے پاک چین سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے لوگو کا اجراء بھی کیا ہے۔حالیہ دنوں میں چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے بیجنگ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔پاک چین سفارتی تعلقات کے ستر برسوں میں دونوں ممالک نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر تعاون کا مظاہرہ کیا ہے اور دونوں پڑوسی ممالک میں سدا بہار دوستی قائم کی ہے۔ بقول ، چینی وزیر خارجہ 70 سالہ پاک چین دوستی نئے عہد میں مضبوط ترین فولاد میں ڈھل چکی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ’’ایک چین‘‘ کی پالیسی پر ثابت قدم رہے گا اور ’’دی بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ انیشی ایٹیو کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
سترویں سالگرہ کی مناسبت سے آئندہ منعقد کی جانے والی تقریب کے حوالے سے چین کے ترجمان وانگ وین بین نے تعارف کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین تعلقات کے قیام کی سترویں سالگرہ کی مناسبت سے سیاست، معیشت و تجارت، ثقافتی تبادلے سمیت متعدد شعبوں میں تقریباً سو سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا ۔
پاک چین دوستی کی ابتداء 21 مئی 1951 سے ہوئی۔ پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار چڑھائو کے باوجود قائم و دائم ہے۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی حمایت کی۔
بھارت کی چین کے ہاتھوں 1962 کی جنگ میں شکست سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اسی زمانے میں پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی حد بندی کی بات چیت شروع ہوئی۔ دراصل اس وقت بھی چین نے دنیا کو یہ باور کروایا کہ ہمسایوں کے ساتھ وہ مناسب اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ ماضی میں امریکہ کی بھارت کو فوجی امداد اور امریکی ہتھیار نا صرف چین بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال کئے جانے کا اندیشہ رہا۔اسی لئے پاکستان دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اپنانے کا خواہشمند تھا۔ انہی وجوہات نے پاکستان اور چین کو بہت قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرحدی حد بندی کے معاہدے پر مارچ1963 میں دستخط ہوئے۔پاکستان اور چین نے فضائی تعاون کے معاہدے کے تحت ڈھاکہ سے شنگھائی کو درمیان فضائی سروس کا آغاز کیا۔اس معاہدے کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ تھی کہ چین نے ان تمام کوششوں کو پسِ پشت ڈال دیا جو بین الاقوامی سطح پر چین کو تنہا کرنے کے لئے کی جارہی تھیں۔
ایک ایسی دنیا میں جہاں تشدد، جنگ و دشمنی کا ماحول ہو ایسے میں دو ممالک جو نظریاتی لحاظ سے یکسر مختلف ہوںلیکن ان کی دوستی دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہے۔ پاکستان اور چین میںسیاسی، معاشرتی اور معاشی شعبوں میں قریبی تعلقات پچھلی سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ 1965کی جنگ میں پاکستان کی چین سے دوستی نے بھارت پر ایک دبائو رکھا۔ جب 16ستمبر کو چین نے بھارت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر تین دن کے اندر بھارت نے سکم چین سرحد سے اپنی فوج نہ ہٹائی تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔ چین کی اس پالیسی سے روس اور امریکہ کے تبدیل شدہ رویے سے پاکستان اور بھارت میں سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت جنگ بندی ہوئی۔ چین کی اس پالیسی سے جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں کو تقویت ملتی رہی ہے۔ دراصل ان سب اقدامات سے دنیا کو اور خاص طور پر پاکستان کے دشمن بھارت کو ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
پاک چین تعلقات میں اہم سنگِ میل شاہراہ ریشم کا راستہ کھلنا تھا۔ جس نے چین کے صوبہ
(Xinjiang)سنکیانگ کو وادی ہنزہ سے ملادیا ہے۔1969 تک شاہراہ قراقرم پر کام جاری تھا۔ اس شاہراہ پر تقریباً15000 پاکستانی اور چینی مزدوروں نے صبح شام کی انتھک محنت کے بعد تقریباً774کلومیٹر اور16,072 فٹ اونچائی پر کام مکمل کیا۔ شاہراہ قراقرم دونوں ملکوں کے تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک عظیم حصہ وہ تاریخی کردار ہے جس کو نہ صرف چین نے بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر امریکہ نے بھی سراہا۔ پاکستان نے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر
( Henry Kissinger)کے بیجنگ کے خفیہ دورے کے انتظامات کئے۔ جس کی وجہ سے بالآخر چین امریکہ سفارتی تعلقات قائم ہوسکے۔ انہی تعلقات کی وجہ سے امریکہ نے چین کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کی مخالفت ترک کی اور چین اقوامِ متحدہ کا ممبر اور سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن سکا۔
چین نے شروع ہی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بار بار پاکستان کی اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں حمایت کی۔ خاص طور پر جب امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی کوششیں شروع کیں تو چین نے شروع ہی سے اس کی شدید مخالفت کی۔چین جنوبی ایشیا میںہمیشہ سے تسلط کی سیاست کی مخالفت کرتا آرہا تھا۔ چاہے وہ تسلط کسی عالمی طاقت کا ہو یا اس کے کسی اتحادی کا۔1971کی پاک بھارت جنگ کی چین نے مخالفت کی اس جنگ میں چینی کردار صرف ہتھیاروں کی ترسیل تک محدود رہا۔ چین پانچ چھ سال سے پاکستان میںتعمیر وترقی اور انفرا سٹرکچر کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور متعلقہ منصوبوں پر عملاً کام میں حصہ لے رہا ہے۔ اس وقت چین پاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ نا صرف یہ بلکہ چین کی اس وقت سب سے بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ تجارت کا حجم 18بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔