وزیراعظم عمران خان اوراپوزیشن ڈائیلاگ!

وزیراعظم عمران خان18اگست2018کوحلف اٹھانے کے بعدقومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اپوزیشن کے شورشرابے کے نتیجے میں ہونے والی تلخیاں ختم ہونے کاوقت آگیاہے۔بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کوپہلے دن سے ہی پارلیمنٹ کے اندراورباہرایک ایسی اپوزیشن سے واسطہ پڑاجوبات سننے کیلئے تیارنہیں تھی۔پارلیمنٹ کے اندراورباہریہ لڑائی آج بھی جاری ہے۔اپوزیشن پارٹیوںنےPDMبناکراحتجاج کی سیاست شروع کی جس میں لانگ مارچ اوراسمبلیوں سے مستعفی ہونابھی شامل تھا۔گزشتہ روزPDMکے اجلاس میں لانگ مارچ ملتوی کردیاگیاجبکہ پیپلزپارٹی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکارکردیااس طرح اپوزیشن انتشارکاشکارہوگئی۔
میں اپوزیشن کے انتشارسے خوش نہیں ہوں جبکہ لانگ مارچ نہ کرنے کافیصلہ اوراسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کااعلان خوش آئندہے۔اپوزیشن کاحق ہے کہ وہ اسمبلیوں کے اندراورباہرحکومت پرتنقیدکرے تاکہ حکومت کی اصلاح ہوسکے۔حکومت اوراپوزیشن گاڑی کے دوپہیے ہیں۔دونوں پہیوں کی موجودگی سے ہی جمہوریت کی گاڑی چل سکتی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن پارلیمنٹ کے اندرلڑائی کرتی ہے اورمذاکرات بھی کرتی ہے۔بدقسمتی سے موجودہ اپوزیشن مذاکرات سے انکاری ہے۔
وزیراعظم نے سیاسی،آئینی اوراحتساب کے معاملات پردس رکنی کابینہ کے ارکان کی کمیٹی قائم کردی ہے۔کمیٹی کاقیام انتہائی احسن اورتازہ ہواکاجھونکاہے۔حکومت نے پیش قدمی کرکے راہ کھول دی ہے۔اگرچہ اپوزیشن راہنماشاہدخاقان عباسی نے کہاہے کہ حکومت پہلے توبہ کرے۔گزارش ہے کہ توبہ اورمعافی سے معاملات حل نہیں ہوتے اورنہ ہی ایک دوسرے کونیچادکھانے سے کسی کی عزت میں اضافہ ہوتاہے۔وزیراعظم نے مالاکنڈمیں بھی اپوزیشن کومذاکرات کی دعوت دی تواس کوقبول کرناچاہئے۔
جبکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم عمران خان نے کئی مرتبہ اہم امورپرمذاکرات کی دعوت دی ہے اور وزیراعظم نے سپیکرقومی اسمبلی کوبھی خط لکھاہے جس میں پارلیمانی پارٹیوں پرمشتمل کمیٹی بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔خط کے مطابق آئندہ آنے والے الیکشن کوشفاف بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے لکھاکہ ’’حالیہ سینیٹ انتخابات میں ایک مرتبہ پھرپیسہ چلا۔کرپٹ پریکٹس کوروکنے کیلئے اصلاحات ناگزیر ہیں۔ شفافیت کوبرقراررکھنے کیلئے ٹیکنالوجی کااستعمال ناگزیر ہے۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ بیلٹ کی سیکریسی دائمی نہیں ہے۔وزیراعظم نے لکھاکہ ووٹنگ میں کرپشن کاباعث بننے والے تمام عوامل کوختم کیاجائے۔ہم نے قومی اسمبلی میں بل بھی متعارف کروایااورسپریم کورٹ بھی گئے۔بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پرکوئی توجہ نہیں دی۔موجودہ انتخابی نظام کی وجہ سے انتخابات کی ساکھ تباہ ہوناشروع ہوگئی ہے‘‘۔PMعمران خان کے خط پرمثبت ردعمل کی ضرورت ہے۔
اپوزیشن اتحادکوآصف زرداری کے’’زوردار‘‘ بیان پردل برداشتہ نہیں ہوناچاہیے اس کی بجائے مثبت رویہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔آئیے مذاکرات کادروازہ کھولیں۔یادرکھناچاہئے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ مذاکرات کیے ہیں۔چاہے فوجی حکومت ہویاعوامی حکومت۔جنرل ایوب خان نے اپوزیشن سے مذاکرات کیے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)اورپی پی پی کواپنے چارٹرکااحترام کرناچاہئے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کوتسلیم کرناچاہئے اورکھلے دل کے ساتھ پانچ سال حکومت کرنے کی بات کرنی چاہئے یہی جمہوریت کاحسن ہے۔PDMکی ناکامی پرشرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صحیح راستہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف نے پہلی دفعہ حکومت حاصل کی ہے PMعمران خان 31ماہ سے ملک اورقوم کوآگے لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔عمران خان کھرے انسان ہیں۔کھل کربات کرتے ہیں ۔لگی لپٹی کے بغیراظہارخیال کرتے ہیں ۔پالیسی تبدیل کرناضروری ہوتوکرتے ہیں۔U-Turnکوئی طعنہ نہیں بلکہ بہادری کی بات ہے۔ایسی پالیسی جس کاملک کونقصان ہونے لگے تواس پرضدکرکے جاری رکھنے کاکوئی جوازنہیں ہوتا۔اکڑنااورضدکرناکمزوراوردرمیانے درجے کے لوگوں کاکام ہے۔ملک کامفاداہم ہوتاہے ناکہ اپنی ضد۔اس لیے میں کہونگاکہ اپوزیشن کواپنی پالیسی پرنظرثانی کرنی چاہیے۔احتساب پرعمران خان مذاکرات کرنے کیلئے تیارنہیں تواس کایہ مطلب نہیں کہ سرے سے بات چیت نہ کی جائے۔یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ2008؁ء میںپیپلزپارٹی کی حکومت آئی توانہوںنےNAB قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جبکہ 2013؁ء میں مسلم لیگ(ن)کی حکومت آئی توانہوںنے بھی احتسابی قوانین کوبرقراررکھا۔18ویں آئینی ترامیم میں بڑے پیمانے پرتبدیلیاں کی گئیں لیکنNABکونہیں چھیڑاگیا۔اب اس پرضدکی کیاضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کااحترام ہوناچاہئے۔قانون اورآئین کی بالادستی ہونی چاہئے۔پارلیمنٹ کے اندرقانون سازی پربات ہونی چاہئے۔
آخرمیں کہتاہوں کہ حکومت اوراپوزیشن آگے بڑھیںملک کومشکل سے نکالیں کسی بھی پاکستانی کیلئے یقینایہ خوشی کی بات نہیں ہوگی کہ ملک وقوم مسائل کاشکارہوں۔

ای پیپر دی نیشن