میرا خیال یہ ہے کہ آپ یہ نام پڑھ کر اور سن کر چونک پڑے ہونگے اور آپ کا چونکنا حق بجانب بھی ہے۔ اس لئے کہ نسیم حجازی ہماری تاریخ نہ سہی ’’ہمارے تاریخ ساز‘‘ تو ہیں اور اس کے دو معقول سبب ہیں ، ایک یہ کہ نسیم حجازی ان چند بلوچ لیڈروں کے اتالیق یعنی ٹیچر تھے جنہوں نے بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنے رہنے پر آمادہ کیا تھا ، یہ آپ کے وطن عزیز پاکستان کی تاریخ کی بات ہے جو ہمیشہ آپ کے دل میں رہنی چاہئے! اگر نہیں ہے تو آپ خسارے میں ہیں ، اسے ڈھونڈیئے اور دل میں سجائیے، کیونکہ یہ زندہ قوموں کا شیوہ اور اعزاز ہوتا ہے۔
نسیم حجازی کو یاد کرنے بلکہ یاد رکھنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اپنے وقت میں وہ عظیم القدر اردو ناول نگار تھے ، میرے بچپن اور جوانی میں اکثر پڑھے لکھے بچے اور بچیاں نسیم حجازی کے ناول پڑھتے اور ان پر تبصرے کرتے ہوئے سامنے آتے اور سنائی دیتے تھے مگر آج ان کا کوئی نام لیتا ہوا بھی نہیں ملتا، بس شاید وہ ایک اکیلا ہی تھا اور یونہی دنیا سے چلا بھی گیا!
میں نے یہاں نسیم حجازی کو ’’ایک اکیلا‘‘ یونہی نہیں لکھا بلکہ اس لئے لکھنا پڑا ہے کہ اس کے ساتھی‘ مددگار‘ پیروکار اور زندہ رکھنے والے ’’صرف اور صرف بے چارے مسلمان ہیں‘ ورنہ اگر وہ کسی ہندو سیٹھ اور عالمی صہیونیت کے علم بردار یہودی کے سودی سرمایہ کے مزے لوٹ کر اپنا قلم بیچ دیتا تو آج سودی شیطانی سرمایہ کے ڈھیر پر لیٹ کر اونگھ رہا ہوتا۔ کم سے کم اسلامی معاشرہ کو اندر سے فساد سے دوچار کرنے کی ناکام کوشش کرتا تو آج اس کی قبر پر ادب کا نوبل پرائز تو سجا دیا جاتا۔ اگر یقین نہیں آرہا تو معروف مصری ناول نگار نجیب محفوظ کو عطا ہونے والے نوبل پرائز والا ناول پڑھ لیجئے جس کا عنوان تھا ہماری گلی کے چھوکرے چھوکریاں (اولادِ حارتنا) جو بدمعاشیاں کرتے ہیں ان کی تصویر ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ناول بیروت سے چھپا اور خود مصر میں آج تک اس کا داخلہ بھی ممنوع ہے۔ مگر اسلامی معاشرہ کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر نوبل پرائز عطا ہونا ضروری تھا نا! ایسے میں نسیم حجازی کی اسلامی ناول نگاری کو کیوں پنپنے دیا جائے؟ اس لئے تو وہ اکیلا آیا‘ اکیلا گیا! بھلا اسلام یا نظریہ پاکستان کا دفاع بھی کوئی کام ہے؟!
بہرحال نسیم حجازی میرے بزرگ دوست اور قدر شناس تھے۔ ان کا سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں مکان میری پناہ گاہ ہی نہیں بلکہ آماجگاہ تھا جہاں کئی ایک افغان‘ بلوچ لیڈروں سے میرا تعارف اور ملاقاتیں ہوتی تھیں جیسے گلبدین حکمت یار‘ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اور ڈاکٹر غزالی ہیں۔ میں اسلام آباد کے قبرستان میں ان کے جنازہ اور تدفین میں بھی شریک ہوا۔ لیکن نہیں‘ وہ ایک اکیلا بھی نہیں تھا اور نہ وہ دنیا سے اکیلا گیا بلکہ وہ تو ہماری تاریخ ہے اور قوموں کی تاریخ باقی رہنے والی اور زندہ جاوید ہوتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ قوم جب اونگھنے لگتی ہے یا سو جاتی ہے تو تاریخ ایک وقفے کیلئے اس سے اوجھل سی ہو جاتی ہے مگر پھر سے نمودار بھی ہو جاتی ہے بلکہ اچانک آن دبوچتی ہے۔
بات بڑھانا نہیں صرف یہ بتانا ہے کہ نسیم حجازی اپنے وقت میں ہی سہی اردو کے عظیم ناول نگار تھے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی قصیدہ خوانی کی۔ نظریہ پاکستان کو اجاگر کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا منہ پھیر کر رکھ دیا۔ یہ نسیم حجازی ہی ہیں جن کا سب سے پہلا اردو ناول محمد بن قاسم فاتح سندھ عربی میں ترجمہ ہوا اور اب تک پاکستان میں چھپنے کے علاوہ دمشق اور بیروت سے چوہدری ایڈیشن بھی چھپ چکے ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے عہد میں حکومت پاکستان خاص کرادارہ قومی ادبیات اسلام آباد) حجازی کے متعدد ناولوں کا عربی میں ترجمہ کروا کر‘ مصر‘ شام اور سعودی عرب کے اداروں کو سونپ چکی ہے۔
نسیم حجازی پر اور ان کے درجنوں ناولوں پر مٹی ڈلوانے والے دو شیطان تھے۔ ایک شیطان تو بے دین‘ نام نہاد‘ ترقی پسند اور کمیونسٹ ہیں مگر دوسرا شیطان نام نہاد قومیت پرست (مخالفین اسلام) بھارت کے نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندو برہمن اور بنیا کے ایجنٹ تھے (اور ہیں) جنہیں پاکستان کا وجود چبھتا رہتا ہے اور قیامت تک یونہی چھبتا اور جلاتا ہی رہے گا۔ نسیم حجازی روزنامہ کوہستان راولپنڈی اور لاہور جبکہ روزنامہ تعبیر راولپنڈی کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔