لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے آئندہ سماعت پر موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء کے سیکشن 4 سے متعلق دلائل طلب کر لئے۔ درخواست گزار نے مئوقف اختیار کیا کہ سابق مالک سے گاڑی خریدی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اس کا ای چالان کا وہ ذمہ دار نہیں، سیف سٹی کیمروں کے ذریعے ای چالان اور نادہندگان سے زبردستی وصولی کا کوئی قانون موجود نہیں، سیف سٹی کیمروں کے ذریعے صرف گاڑیوں کی سپیڈ چیک کی جا سکتی ہے جو بطور شہادت استعمال ہو سکتے ہیں۔ نادہندگان کے چالان متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت کو بھجوانا قانونی تقاضا ہے۔ مطلقہ مجسٹریٹ ہی متعلقہ چالان پر سمری ٹرائل کر کے جرمانہ یا بری کرنے کا اختیار رکھتا ہے، عدالت کے روبرو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ملک اختر جاوید نے مئوقف اختیار کیاکہ درخواست کی گرائونڈز اور استدعا کے مطابق یہ کیس قابل سماعت نہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں کہ جو آ پ پڑھ رہے ہیں کیا وہ اس کیس سے متعلقہ ہے بھی یا نہیں؟ کیا سیف سٹی اتھارٹی کے پاس ای چالان کرنے کا اختیار ہے؟۔ اگر اختیار ہے تو کیا ڈرائیور کی غلطی پر گاڑی بند کی جا سکتی ہے؟۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا 25 اگست 2021ء کو آرڈیننس میں ترمیم کی گئی، ترمیم کے ذریعے ای ٹکٹنگ کا اختیار سیف سٹی اتھارٹی کو دیا گیا، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ خلاف ورزی کا جو ٹکٹ جاری کیا جاتا ہے اس پر خلاف ورزی کرنے والا 20 دن کے اندر چالان جمع کروانے کا پابند ہوتا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ مجھے یہ بتائیں کہ خلاف ورزی وہیکلز کی ہے یا پھر چلانے والے کی؟۔ آپ نے جس شخص کو چالان ایشو کیا اگر وہ اس وہیکل میں موجود ہی نہیں ہے؟ بتائیں اگر کوئی شخص فوت ہو چکا ہے تو، کا چالان کس پر کریں گے؟ وکیل نے کہا ایکٹ کے مطابق جس شخص کے نام گاڑی ہے وہ چالان جمع کروانے کا پابند ہے، ایسی صورت حال میں ریمڈی موجود ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر آپ سیکشن 4 پر ججمنٹ پیش کریں۔