ملتان (سپیشل رپورٹر)نائب امیر جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ اقتدار، جمہوریت اور پارلیمانی نظام میں کوئی فرد، پارٹی اور لیڈر ناگزیر نہیں ہوتا، یہ نظام آئین اور جمہوری قدروں اور ضابطوں کا پابند ہوتا ہے۔ سیاسی اور حکمرانی کی تاریخ میں کئی حکمران آئے، وہ بھی اپنے آپ کو ناگزیر جانتے تھے لیکن اقتدار سے عزت یا ذلت سے رخصت ہوگئے اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ فوجی آمر بھی توسیع اس لئے لیتے کہ وہ ناگزیر ہیں۔ بھٹو مرحوم کو بھی زعم تھا کہ ناگزیر ہیں اور اْں کے جانے پر ہمالیہ روئے گا۔ میاں نوازشریف بھی پاپولر ہوئے، بار بار نکلے لیکن عوام اْن کے ساتھ نہ نکلے۔ وزیراعظم عمران خان بھی تاریخ کے اِس ناقابلِ تردید حقیقت کو جانیں اور آئینی، سیاسی، جمہوری شائستگی کا راستہ اختیار کریں۔ عدمِ اعتماد کے لیے مطلوبہ ممبر پورے کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری اور آپ کے لیے اکثریت ثابت کرنا آئینی پابندی ہے۔ حکومت اکثریت کھوچکی ہے، اِسی لیے جمہوری آئینی راستہ اختیار کرنے کی بجائے فساد، ہنگامہ پروری کی جارہی ہے۔ کرسی کبھی مستقل شے نہیں۔ اخلاق، شائستگی اور آئینی جمہوری راستہ ہی پائیدار اور باعثِ عزت ہوتا ہے۔ او آئی سی کانفرنس اور 23 مارچ یومِ پاکستان پریڈ سے پہلے ہی حکومت اور سپیکر کو آئینی فرض ادا کرلینا چاہیے تھا۔ بدنما صورتِ حال پیدا کرکے آئین سے انحراف کیا گیا ہے۔ خدانخواستہ غیرآئینی عمل آئین سے ماورا اقدامات کی بنیاد نہ بن جائے۔ لیاقت بلوچ نے او آئی سی وزراء خارجہ کانفرنس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی، حقِ خودارادیت کے لیے دوٹوک اقدامات کا اعلان کرے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے اور اسلامی مقدسات کی حفاظت کیلئے اتحادِ اْمت، فرقہ واریت کے خاتمہ اور اسلاموفوبیا کے سدباب کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی اور شاطمینِ مقدسات اسلام کو مشترکہ مضبوط اور مثبت پیغام دیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کراتے ہوئے او آئی سی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے واضح جوہری کردار ادا کرے۔ مسئلہ کشمیر کا حل عالمِ اسلام اور پورے خطہ میں امن، ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔