او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کی اڑتالیسویں کانفرنس

Mar 22, 2022

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) دنیا بھر میں مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ 57 اسلامی ممالک کی رکنیت رکھنے والی یہ تنظیم اپنی تشکیل سے لے کر اب تک کئی اہم مسائل کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے کامیابی سے رکھ چکی ہے۔ اس تنظیم کی تشکیل کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس کے ذریعے مختلف مسائل، امور اور معاملات سے متعلق مسلمانوں کی مشترکہ آرا کو بین الاقوامی سطح پر اس طرح پیش کیا جائے کہ ان میں سب کی ترجمانی ہو۔ اس تنظیم کے کام کرنے کے طریقوں پر بہت سے سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں اور کئی اہم مسائل کے حوالے سے اس کے بھرپور طریقے سے سرگرم نہ ہونے پر تنقید بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تنظیم نے کئی مواقع پر نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے بلکہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق بھی ادا کیا ہے۔
آج 22 مارچ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کی اڑتالیسویں کانفرنس شروع ہورہی ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس کا موضوع ’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شرکت داری کا قیام‘ ہے۔ او آئی سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں کئی موضوعات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ فلسطین اور القدس سمیت عالم اسلام کے معاملات پر منظور کی جانے والی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے او آئی سی جنرل سیکرٹریٹ کی کارکردگی پر بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس افغانستان کی صورتحال اور اس کے انسانی مضمرات کے علاوہ بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں وکشمیر کی موجودہ صورتحال کابھی جائزہ لے گی۔ او آئی سی وزرائے خارجہ یمن، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، شام اور دیگر علاقوں میں ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیں گے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں بتایا کہ یہ کانفرنس پاکستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ کی تقریبات کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ کانفرنس میں 48 سے زائد وزرائے خارجہ ، نائب وزرائے خارجہ ، وزرائے مملکت، سرکاری حکام ، 15 مبصر ممالک کے نمائندگان خصوصی یا اعلیٰ حکام سمیت 675 مبصرین شرکت کریں گے۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ او آئی سی کا یہ اجلاس تاریخی نوعیت کا ہے۔ اجلاس میں امہ کو درپیش چیلنجز زیرغور آئیں گے۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ اس کانفرنس کے صرف پہلے اور اختتامی اجلاس کی تمام کارروائی سب کے سامنے ہوگی اور بقیہ تمام اجلاس بند کمرے میں ہوں گے۔ مسلم ممالک کو درپیش مسائل کے حل پر غور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام آراء کو سامنے رکھا جائے اور اگر کسی قسم کا کوئی اختلاف پایا جاتا ہے تو اس پر بھی کھل کر بات ہونی چاہیے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب اجلاس کی تمام کارروائی کھلی نہ ہو کیونکہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جو کھلے اجلاس کے دوران نہیں کہی جاسکتیں۔ افغانستان، جموں و کشمیر اور فلسطین سمیت تمام آفت زدہ مسلم علاقوں سے متعلق مشاورت کے لیے بھی ضروری ہے کہ اجلاس بند کمرے میں ہوں تاکہ تمام شراکت دار اپنے موقف واضح طور پر پیش کرسکیں۔
او آئی سی کے اس اہم اجلاس کے اختتام پر شاہ محمود قریشی اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے جس میں اجلاس کے دوران ہونے والے اہم فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ اجلاس اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ افغانستان میں غیر مستحکم حالات کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر قابو پانے کے لیے مسلم ممالک کے نمائندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا اور بین الاقوامی برادری میں شامل دیگر ممالک کو اپنے تحفظات و خیالات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کسی مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک تمام یا اکثر ممالک کے نمائندگان اس حوالے سے تبادلۂ خیالات کر کے کوئی مشترکہ موقف تشکیل نہیں دیتے۔ او آئی سی کے اس اجلاس میں افغانستان کے حالات اور ان کے فوری حل کے حوالے سے جو معاملات زیر بحث آئیں گے ان کے ذریعے یقینا اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں فوری استحکام کے لیے کوشش کریں تاکہ نہ صرف افغانستان میں امن قائم ہوسکے بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک بھی ان خدشات سے آزاد ہوسکیں جو اس وقت ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر اور فلسطین، دو ایسے مسائل ہیں جو گزشتہ پون صدی سے حل طلب ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ بھارت اور اسرائیل کے خلاف بیانات تو بہت سے دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جاتا جس سے ان مسائل کے حل کی کوئی صورت پیدا ہو۔ او آئی سی کے ارکان اگر افغانستان میں استحکام کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین سے متعلق بھی واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جلد ہی ان مسائل کا حل مل سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی کی اس کانفرنس میں ان مسائل کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اور ان سے متعلق کیا فیصلے کیے جاتے ہیں۔

مزیدخبریں