کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ایک انٹرنیشنل سازش ہے۔ اس سازش کے لیے مغربی سامراجی ممالک کی جانب سے بھی فنڈنگ کی گئی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس اور زرداری ہاؤس میں میلہ اسپاں و مویشیاں سجا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہی مارچ کا مہینہ تھا لیکن سال 1977ء تھا۔ یہ آج ہی کی 22 مارچ کی شب تھی کہ بیرسٹر ایم انور شاہی قلعہ کے ٹارچر سیل میں بیلف کے ساتھ داخل ہوئے۔ راقم الحروف اور جاوید ہاشمی کو وہاں سے بازیاب کروایا۔ وہ شب ہم نے ٹیکسالی گیٹ تھانہ کی حوالات میں بسر کی۔ 23 مارچ 1977ء کو زاہد بٹ نامی سب انسپکٹر نے ہمیں ضلع کچہری میں مجسٹریٹ شیر افگن کی عدالت میں پیش کیا۔ ہم پولیس کی جیپ ہی میں بیٹھے رہے۔ سب انسپکٹر مجسٹریٹ صاحب کے کمرے میں گیا اور پھر چند منٹ بعد واپس آیا اور ہمیں اطلاع دی کہ ہمیں 40 روز کے لیے ڈپٹی کمشنر صاحب کے حکم سے کیمپ جیل لاہور میں حراست میں رکھا جائے گا۔ملک بھر کے طول وعرض میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک عروج پر تھی۔ ۔۔
15 مارچ کے بعد جب سندھ ہاؤس کے حوالے سے یہ خبریں منظر عام پر آئیں تو میں نے اندازہ لگایا کہ عمرانی دور میں مہنگائی کس حد تک بڑھ چکی ہے وہ ایم این اے جو چھانگا مانگا آپریشن کے دوران 20 لاکھ سے بھی ارزاں نرخوں پر پنجاب حکومت خرید لیا کرتی تھی، اب ان کی مالیت 20 کروڑ ہو چکی ہے۔ ہاں واقعی مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ اگر یہ سب درست ہے تو بہر طور ان معاملات کی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ بکاؤ مال سے بھی پوچھا جانا چاہیے اور ضمیر کے سوداگروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے بھلے سے بھی وہ تحریک اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے بعد ہو۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حالیہ مبینہ واقعات و حوادث کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا اور آئندہ آنے والی کسی بھی متوقع حکومت کو اس معاملے کی فوری تحقیقات شروع کر کے اس کے تمام ذمہ داران کو سامنے لانا ہو گا تاکہ ملک میں سازش کا کلچر ختم ہو۔ متوقع آئندہ حکومت کو وہ پی ڈی ایم کی ہو یا عمران خان کی، یہ موقع گنوانا نہیں چاہیے کیونکہ اس صورت میں سیاستدانوں کے دامن سے کرپشن کے داغ مٹنے مشکل ہوں گے۔
پاکستان میں گزشتہ3برسوں میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ معاشی انڈیکیٹر بہتر ہوئے ہیں۔ صنعتوں کے لیے توانائی کا معاملہ حل ہو چکا ہے۔ تمام انٹرنیشنل ریٹنگ اداروں نے پاکستان کے اشاریے مثبت قرار دیے ہیں ،ریکو ڈک کا معاملہ حل ہوچکا ہے مگر ملک میں پی ڈی ایم کی جانب سے فلور کراسنگ کی ترغیب دینے کے لیے جو مذموم اور مکروہ سیاسی ناٹک رچایا اور ڈرٹی سیاسی گیم کا آغاز کیا گیا ہے، خدشہ ہے کہ اس سے پارلیمانی جمہوری نظام سے عوام کا اعتماد بتدریج اٹھ جائے گا۔ یہ پارلیمانی جمہوری نظام کے چہرے کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ امر سمجھ لینا چاہیے کہ آج حزب اختلاف کل حزب اقتدار ہو سکتی ہے اگر اسے بہترین معیشت ملے گی تو اس کے لیے کام کرنا آسان ہو گا۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ سیاسی سر پھٹول سے گریز کریں وہ سیاست کریں جو صاف ستھری ہو۔ الزام تراشی اور دھمکی آمیز لب و لہجہ سیاست دانوں کو زیب نہیں دیتا ہم امید رکھتے ہیں کہ سیاسی استحکام برقرار رہے گا اور ملکی معیشت بہتر ہو گی۔
مقام افسوس ہے کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدیداران کے بیانات میں تلخی، برہمی، اشتعال اور شدتِ جذبات میں غیرمحتاط ، غیر معیاری، غیراخلاقی اور غیرپارلیمانی زبان کا استعمال روز افزوں ہے۔ اور تو اور ایسی شخصیات جنہیں سنجیدہ ، نستعلیق و خلیق تصور کیا جاتا رہاہے، وہ بھی ایسے خار دار الفاظ استعمال کر رہے ہیں جو یقینا ان کے بھرم بھائو کے شایان شان نہیں۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی اور ان کے شعلہ بار ترجمان جس قسم کے تیز دھار خطابات اور قاتلانہ و جارحانہ بیانات ایک دوسرے کے خلاف داغ رہے ہیں، انہیں کسی بھی طور شائستہ اور مہذب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سنجیدہ فکر حلقوں کی رائے ہے کہ قومی جماعتوں کے رہنمائوں کو اس امر کا ادراک و احساس ہونا چاہئے کہ وطن عزیز میں بڑی مشکل سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر رواں دواں ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک حکومتی ارکان کو بہ نسبت اپوزیشن کے اس امر کو زیادہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔