کراچی (اسٹاف رپورٹر)سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹڈیز سندھ اور آئی آر ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی کے زیراہتمام HEJ آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں ‘‘روایتی و غیرروایتی تحفظ پاکستان کے لئے کس قدر ضروری ہے‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انصر پرویز کا کہنا تھا کہ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان اپنے بیشتر مسائل کو حل کرسکتا ہے، فی الحال ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا ہے جس کے سدباب کے لئے چھ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے تقریباً 3500 میگاواٹ کی سستی، دیرپا اور ماحول دوست بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ زراعت، صنعت، صحت، قدرتی ماحول اور تعلیم کے میدان میں بھی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن خدمات انجام دے رہا ہے۔ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے بڑے خدشات ہیں، خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات کا کھیل پاکستان کو متاثر کررہا ہے، بھارت چین تنازعات کے ساتھ تجارت بھی کررہے ہیں، یہی پالیسی امریکا اور چین بھی اختیار کئے ہوئے ہیں، پاکستان کو تمام شعبوں پر توجہ دینا ہوگی۔ بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل نے کہا کہ برصغیر کی تقسیم سے ہی پاکستان کو مقبوضہ کشمیر، پانی کی تقسیم اور دیگر مسائل کا سامنا رہا، اس وقت معاشی مسائل ایک بڑا خطرہ ہے اور بھارت کی جارحانہ اور مودی کی ہندوتوا پالیسی بھی خطے کے امن کے لئے بڑا خطرہ بن چکی ہے، بالاکوٹ حملہ میں اگرچہ پاکستان نے بھارت کو بھرپور جواب دے دیا مگر اس کی پاکستان دشمن سوچ اب بھی برقرار ہے، روایتی و غیرروایتی تحفظ ہمارے لئے انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ سابق سفیر قاضی ایم خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ کے بعد دوطرفہ معاہدے کے ذریعے امن قائم ہوا جس میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا، تنازعات کا حل ضروری ہے، سعودی عرب اور ایران کے درمیان بالآخر تعلقات بحال ہونے لگے ہیں جس میں چین کی ثالثی شامل ہے، پاکستان بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے مگر ماحولیاتی تبدیلی، سائبروار جیسے غیرروایتی خطرات کا سامنا ہے، گزشتہ سال کے سیلاب سے ہمیں تقریباً 15 بلین ڈالر کا مالی نقصان ہوا، جنیوا کانفرنس میں پاکستان سے 9.2 بلین ڈالر کی امداد کے وعدے ہوئے، پاکستان کو اپنے مالی معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا تاکہ معاشی خطرے سے بھی تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ سابق سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے سیکیورٹی مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے، ہماری خارجہ پالیسی میں کشمیر کے ساتھ فلسطین کے تنازعے کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، کلونیل ازم کے خاتمے کے بعد ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں تنازعات نے نیا رُخ اختیار کیا تھا جسے بروقت حل کرلیا جاتا تو دُنیا میں امن کا قیام یقینی ہوجاتا، ہیٹی سے دیگر افریقی ممالک تک امن کے لئے پاکستان کا اہم کردار رہا ہے، ہمارے 7 ہزار فوجی بین الاقوامی امن مشن کا حصہ ہیں، چین اور امریکا تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں، ہمارے خطے کا امن 1979ء میں روسی فوج کے افغانستان میں داخلے سے متاثر ہوا۔ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نیوکلیئر ہتھیاروں کو مزید جدید خطوط پر استوار کررہا ہے، بھارت کاؤنٹر فورس کی پالیسی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اسے یہ برداشت ہی نہیں کہ مخالف ملک ایٹمی قوت کا حامل ہو، بھارت کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن سمیت سات مختلف ایشوز پر کام کررہا ہے، پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنے کے لئے پروپیگنڈا کرنا ہے دوسری جانب اپنے بلیسٹک میزائل کی رینج کو 5 ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ تک تجاوز کرچکا ہے، جس سے اس کے خطے سے باہر کے اہداف کا پتہ چلتا ہے، اینٹی بلیسٹک میزائل سسٹم کے حصول پر بھی کام کررہا ہے، چین سے گاوان وادی میں جھڑپ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی عکاسی کرتا ہے، مئی 2020ء میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان اسپیس ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کا معاہدہ ہوا جو پاکستان اور چین کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ نسٹ کے پروفیسر ڈاکٹر یاسر ایاز نے کہا کہ دُنیا میں اس وقت غیرروایتی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ ہے، روبوٹ کے ذریعے عسکری عزائم کی تیاری کی جارہی ہے، 72 فیصد بین الاقوامی کمپنیز اس میں سرمایہ کاری کررہی ہیں، 2025ء تک اس میں مزید 10 گنا اضافہ ہوچکا ہوگا، آئندہ دو سال میں ہر گھر میں روبوٹ ہوسکتا ہے، 63 فیصد انٹیلی جنس اس پر انحصار کرنے لگی ہے۔ دُنیا میں سائبراسٹیک کے بڑھتے حملے انتہائی خطرناک ہیں، 90 ہزار ویب سائٹس روزانہ ہیک ہوجاتی ہیں۔ 15 اعشایہ 7 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، پاکستان کو بھی اپنے وسائل کے مطابق اس شعبہ میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ جامعہ کراچی آئی آر ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر شائستہ تبسم کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کا مقصد بقا ہ، دُنیا کے حالات تبدیل ہونے سے سیکیورٹی کے خدشات و خطرات بھی بدل رہے ہیں، نئے چیلنجز سامنے آرہے ہیں، ہمیں جدید طریقے کے مطباق اپنے سیکیورٹی نظام کو بنانا ہوگا، قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ دفاع کمزور ہوگا تو بین الاقوامی برادری میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اس سیمینار میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ افراد شریک ہوئے جبکہ طلبا کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ سیمینار کے اختتام پر آئی آر ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر نوشین وصی نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی ایسے ہی موضوعات پر ماہرین کو دعوت دیتے رہیں گے تاکہ ہمارے طلبا دُنیا کے بدلتے حالات اور ابھرتے چیلنجز سے آگاہ ہوسکیں۔
دہشت گردی و انتہاپسندی ہمارے لئے سب سے بڑے خطرات‘ ڈاکٹر خالد عراقی‘ جنوبی ایشیا میں سیکیورٹی کے نئے چیلنجز سے آگاہ ہیں، بریگیڈیئر (ر) آغا احمد گل
Mar 22, 2023