اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بنچ میں زیر سماعت مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں چھپانے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نااہلی کیس میں درخواست گزار وکیل نے دلائل مکمل کرلیے۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ نواز شریف کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا نااہلی سے متعلق فیصلہ موجود ہے۔ عدالت نے کہاکہ اگر کسی کو نہیں پتہ یا کسی نے بچے کا نام نہیں دیا تو کیا فرق پڑتا ہے؟۔ عمران کے وکیل نے کہاکہ نہ عمران خان نے کہا کہ وہ انکی بچی ہے اور نہ ہی ٹیریان بچی ہے، وہ خود کفیل ہے۔ عدالت نے کہاکہ اگر کوئی بچہ یا بچی فنانشلی ڈیپینڈنٹ نہیں ہے تب کیا ہوگا؟۔ وکیل درخواست گزار نے خواجہ آصف نااہلی کیس کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ آصف کیس کا ہمارا فیصلہ معطل ہوچکا۔ فیصل واوڈا کیس میں حقائق تسلیم شدہ تھے ، پھر معافی مانگی گئی، خواجہ آصف کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ سے کالعدم قرار دیا جاچکا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے ضمنی انتخابات میں عمران خان کے بیان حلفی جمع نہ کرائے جاسکے اور کہا گیا کہ متعلقہ ریٹرننگ افسروں سے بیان حلفی موصول ہونے میں دو دن لگیں گے، عمران خان کے وکیل نے حبیب اکرم کیس کا فیصلہ عدالت میں پیش کردیا، عدالت نے الیکشن کمیشن وکیل سے کہا کہ آپ نے الیکشن کمیشن سے وہ دستاویزات لے لئیے ہیں ؟، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ضمنی انتخابات میں جمع کردہ بیان حلفی آر آوز کے پاس ہے ایک روز میں مل جائے گا، عمران خان کا 2018 کے عام اور 2022 کے ضمنی انتخابات کی ایک ہی بیان حلفی ہے، عمران خان کے وکیل نے حبیب اکرم کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حبیب اکرم کیس کے مطابق کوئی بھی کسی کا بھی زیر کفیل ہو سکتا ہے، وکیل درخواست گزار نے عمران خان کی 2018 انتخابات کے لئے جمع کردہ بیان حلفی عدالت کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہاکہ سلیمان خان اور قاسم خان کا نام بیان حلفی میں ہے، ساتھ کہا بھی کہ وہ والدہ کے ساتھ لندن میں رہتے ہیں، دو بچے زیر کفالت اور ایک بچی زیر کفالت نہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے، اگر وہ دونوں بچے ابھی کفالت میں نہیں تو نام کیوں لکھے؟، یہاں صرف زیر کفالت ہونے کا سوال نہیں، بیٹی تو شادی تک والد کے زیر کفالت ہی ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہاں پر لفظ زیر کفالت ہی ہے ، بچے کا نہیں لکھا گیا، اگر کوئی بچہ زیر کفالت نہیں تو اس کے کیا اثرات ہونگے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بیٹوں کی تفصیلات اس لئے دی کیونکہ وہ پہلے زیر کفالت تھے، درخواست گزار وکیل نے کہاکہ پہلے زیر کفالت تھے تو اب ان کی تفصیلات کیوں دے رہے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ان دو بیٹوں کے نام بھی نہیں ہوتے تو کیا ہوتا؟، سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ تو بھی کچھ نہیں ہونا تھا کیونکہ وہ زیر کفالت نہیں، درخواست گزار وکیل نے کہاکہ دو بچوں کا نام دینا اور ایک کا نہیں دینا یہ بھی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے، یعنی کہ بیان حلفی میں غلط معلومات کی ہیں۔ چیف جسٹس نے درخواستگزار وکیل سے کہاکہ شاہ صاحب آپ کوئی ججمنٹ دینے لگے تھے۔ جس پر درخواست گزار وکیل نے کہا کہ میرا کمپیوٹر سٹک ہوگیا، اس موقع پر سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یعنی کہ اب کمپیوٹر بھی لاجواب ہوگیا، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے، وکیل درخواست گزار نے نداکھوڑو کیس کا فیصلہ عدالت میں پیش کیا اور کہاکہ ابھی ہم عمران خان کے بیان حلفی کے میرٹ پر نہیں آسکتے، ابھی تو یہ بیان حلفی پر بات نہیں کررہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط، عمران خان کے وکیل نے کہاکہ بیان حلفی کو تو ہم مان رہے، اس میں تو کوئی ابہام نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر وہ بیٹی قبول بھی کرلیتے ہیں ، تو بھی قانونی طور آپ کی درخواست منظور تو نہیں ہوجائے گی، بیان حلفی کی جو قانونی ریکوائرمنٹس ہیں وہ بھی تو دیکھنا ہونگی، عمران خان کے وکیل نے کہاکہ ہم نے کہا ہے بیان حلفی درست ہے، ہم کوئی انکار نہیں کررہے، درخواستگزار وکیل نے کہاکہ بیان حلفی پری میچور ہے، عدالت نے کہاکہ چیزیں آپ نے ثابت کرنا ہیں، کیوں کہ کوورنٹو کی درخواست آپ کی ہے، بیان حلفی کے سوا جو باقی دستاویزات کا آپ ذکر کررہے وہاں بھی کچھ واضح نہیں، عدالت نے سماعت 29 مارچ تک کیلئے ملتوی کر دی۔