انصاف قوموں کی زندگی کا ضامن ہوتا ہے جس سے زندگی توانا بنتی ہے ، ناانصافی قومی تشخص کو برباد کر دیتی ہے ، دوسری جنگِ عظیم میں بر طانوی وزیر ِ اعظم ونسٹن چرچل کے سپہ سالار نے اطلاع دی کہ ہم شکست کے قریب ہیں اور جاپانی فوجیں لندن کا محاصرہ کر چکی ہیں ، چرچل نے سپہ سالار سے استفسار کیا کہ ” کیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصاف کر رہی ہیں “ سپہ سالار نے کہا جی ہاں چرچل نے پ±ر اعتماد انداز میں کہا کہ ” پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا “ چرچل کا اعتماد قوی تھا جاپانی فوجوں کو پسپا ہونا پڑا۔
انصاف میں تاخیر انصاف سے روگردانی انصاف نہ کرنے کی دلیل ہیں ، ایک چینی فلسفی کنفیوشس سے پوچھا گیا کہ اگر کسی قوم کے پاس تین اہم ادارے انصاف ، معیشت اور دفاع ہوں اور قومی مفاد کے پیشِ نظر کسی ایک کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس ادارے کو ترک کیا جائے ، کنفیوشس نے کہا کہ دفاع کو ترک کر دو، پوچھا گیا کہ اگر باقی ماندہ دو اداروں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو جائے تو کیا کیا جائے ، کنفیوشس نے کہا معیشت کو چھوڑ دو ، حیرت سے پوچھا کہ معیشت اور دفاع کو ترک کر دینے سے قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کر دیں گے ، تب کنفیوشس نے کہا نہیں ایسا نہیں ہو گا بلکہ یہ ہو گا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہو گا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔
اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنے کی گھڑی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ،جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت نے ملک کو ہر طرح سے غیر مستحکم کیا جب کہ ان کے فیصلے کو عالمی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، جسٹس منیر نے پاکستان کو ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا تھا ، جسٹس مولوی مشتاق سے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک استاد نے ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹا?ن بی بلاک میں ملاقات کی باتوں باتوں میں بھٹو کا ذکر آیا تو مولوی مشتاق کے چہرے پر اداسی چھا گئی قدرے خاموشی کے بعد بولے کہ ” پروفیسر صاحب چند دن کا مہمان ہوں سوچتا ہوں کہ اللہ کا سامنا کیسے کروں گا ، بھٹو صاحب کے معاملے میں مجھ سے انصاف نہیں ہوا ، دراصل میں کسی وجہ سے بھٹو صاحب سے ناراض تھا اسی انتقامی جذبے کے تحت میں نے وہ فیصلہ دیا ، جس کی یاد میرے لئے عذاب بن چکی ہے “۔اس کیس کے دوسرے جج نسیم حسن شاہ کا اعتراف ان کی زندگی میں انہی کی زبانی ایک نہیں متعدد ٹی وی چینلز پر سامنے آیا ، جسٹس ثاقب نثارملک کی عدالتی تاریخ کے واحدجج ہیں جنہیں ان کے عدالتی فیصلوں سے زیادہ غیر عدالتی سرگرمیوں اور انتہائی متنازع فیصلوں کی وجہ سے یاد کیا جائے گا ، دورانِ انصاف بطور چیف جسٹس جانبدارانہ فیصلوں کے علاوہ ایسے اقدامات بھی کر گئے جو کہ قانونی ماہرین کی نظر میں براہ راست حکومتی اور انتظامی امور میں مداخلت کے مترادف تھے ، ان کے جانبدارانہ اور متنازع فیصلے کی سزا پاکستانی عوام مہنگائی ، زرمبادلہ کی کمی اور انتشار کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
غیر سیاسی افراد کے انتشار پسندانہ رویے اور انصاف کے پلڑے کا جھکا? حالیہ ملکی بحران کا سبب ہیں ، عالمی سطح پر ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ عدالت ملزم کے انتظار میں بیٹھی رہے اور ملزم کمرہ عدالت میں اپنی انائ کی وجہ سے حاضر نا ہو لاہور ہائیکورٹ میں جو سلسلے وار ڈرامہ ہوا ، اور عدلیہ کا ملزم کی پیشی کو قابلِ ستائش قرار دینا کسی بھی طور پر عدل و انصاف کے تقاضے کے بر عکس تھا، اسلام آباد کے جو ڈیشنل کمپلیکس میں عدالت نے عمران خان کی گیٹ پر حاضری لگوانے کے لئے حاضری فارم گیٹ پر بھجوا دیا اور وہ پیشی کے بغیر ہی واپس چلے گئے عدالتوں کا جانبدارانہ رویہ مایوس کن اور ملک میں انتشار میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل کے بیان کے بعد ” اب کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا “ دفترخارجہ نے زلمے خلیل کے بیان پر اپناشدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ” سابق امریکی نمائندہ کا بیان اندرونی معاملات میں مداخلت ہے ، پاکستان کو در پیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کسی لیکچر یا مشورے کی ضرورت نہیں “ اس بات کا علم تو زلمے خلیل کو بھی ہے کہ اس طرح کے بیان سے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب ہوں گے اس کے باوجود ایسا بیان دینے کے پسِ پردہ عوامل کیا ہیں اور ملک میں جاری انتشار اور لا قانونیت کے پیچھے چھپے عزائم کیا ہیں ، یہ تمام کڑیاں ملائی جائیں تو حالیہ کشیدگی میں اداروں کا کردار انتہائی مایوس کن اور معنی خیز دکھائی دیتا ہے ، جب کہ ملک میں عالمی سرپرستی میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے ،قانون اور عدالتوں کی تضحیک کی جا رہی ہے ، جس سے ان غیر سیاسی افراد کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
دوہرے معیارکا معاشرے میں پروان چڑھنا ایک لمحہ فکریہ ہے مہذب قوموں کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا، جو قومیں تہذیب کے دامن کو چھوڑ کرذاتیات کے دائرے میں اپنے آپ کو مقید کر لیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ، سرِ دست انصاف کے پلڑے کا جھکا? مخصوص سمت کی جانب ہو جانا ملکی یکجہتی کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔
بیرونی مداخلت اور ملک میں بڑھتے انتشار پر وزیرِ اعظم نے سینٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہاکہ کسی لیڈر کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے عدلیہ سمیت ہر ادارہ تقسیم ہو گیا ہے۔