ڈاکٹر سبیل اکرام
22مارچ کو پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے،اس حوالے سے دنیا بھر میں سیمنارز اور دنیا کو پانی کے حوالے سے درپیش مسائل پر گفتگو ہوتی ہے، انسانی زندگی میں صاف پانی کی اہمیت اور آلودہ پانی کے نقصانات کے موضوع پر مقالے پڑھے جاتے اور تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔صاف پانی کو ضائع ہونے اور آلودہ ہونے سے کیسے بچایا جائے پر سوچ بچار کی جاتی ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس کا ذمہ دار بھارت ہے۔بھارت نے پاکستان پر پہلا آبی حملہ تقسیم ہند کے صرف ساڑھے سات ماہ بعد یعنی یکم اپریل 1948ء کو کیا تھا۔اس سے بھارت کے پاکستان دشمن جذبات کو سمجھا جاسکتا ہے۔جو پانی پاکستان کے حصے کا تھا بھر پور کوشش کی گئی کہ پاکستان اس پانی سے محروم رہے۔جس طرح سرحدوں کی تقسیم کیلئے کمیٹیاں بنائی گئیں اسی طرح ایک کمیٹی نہروں کے پانی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے بنائی گئی تھی جو دو ممبران پر مشتمل تھی مغربی پنجاب سے جسٹس اسماعیل اور مشرقی پنجاب سے جسٹس سر ہری لال کانیا اس کے ممبر تھے۔اس کمیٹی نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پنجاب کے دونوں حصوں کی نہروں کا پانی جوں کا توں رہے گا اور موجودہ پانی کی مقدار میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔بعد ازاں یہ معاملہ دو چیف انجنیئروںکے سپرد کیا گیا۔ان میں سے ایک انجنئیر کا تعلق پاکستان سے اور دوسرے کا بھارت سے تھا۔دونوں نے ایک عارضی معاہدہ تشکیل دیا جس کی رو سے مادھو پور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس سے مغربی پنجاب اور ریاست بہالپور کو سیراب کرنے والی نہروں کا پانی جوں کا توں رکھا گیا۔اس معاہدہ کی معیاد 31مارچ 1948ء تک تھی۔اس سلسلہ میں انجنیئررمیض احمد ملک اپنی کتاب ’’تین دریا کیسے کھوئے ‘‘میں لکھتے ہیں ’’ پانی کے ذخائر کی تقسیم کے سلسلے میں ایک میٹنگ تھی جس میں مغربی پنجاب کی طرف سے سردارشوکت حیات اور مشرقی پنجاب کی طرف سے سردار سورن سنگھ(جو بعد میں بھارت کے وزیر خارجہ بنے) شامل تھے۔شوکت حیات نے سورن سنگھ سے کہا ’’اوئے سکھا توساڈاں پانی تے بند نیئں کردیں گا۔‘‘سورن سنگھ نے جواب میں کہا ’’توں کی گل کرداپیاایں کدے کسے نے بھراواں دا پانی وی بند کیتا اے۔‘‘ یعنی کیا کبھی کسی نے بھائیوں کا پانی بھی بند کیا ہے۔ ایک طرف بھارت کے وزیروں ،مشیروں اور آبی ماہرین کی طرف سے یہ یقین دہانیاں تھیں اور دوسری طرف جیسے ہی 31مارچ کا سورج غروب اور یکم اپریل کا سورج طلوع ہوا فیروز پور اور مادھو پور ہیڈ ورکس سے مغربی پنجاب (پاکستان) کی زمینوں کو سیراب کرنے والا پانی بند کر دیا گیاجو مسلسل 34دن تک بند رہا جس سے 1.66ایکڑکی اراضی ختم ہو گئی۔کسان اور جانورپانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے،نہروں پر گندم کی فصل سوکھ گئی،ہزاروں جانور پانی نہ ملنے کی وجہ سے مر گئے اور ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
یکم اپریل کو بھارت کی یہ کاروائی بہت معمولی چوری تھی پاکستان کے پانی پر اصل ڈاکہ جو انگریز اور کانگریس نے مل کر مارا وہ فیروز پور اور مادھو پور ہیڈ ورکس کی بھارت کو منتقلی تھی۔ دونوں ہیڈ ورکس مسلم اکثریتی علاقوں میں واقع تھے اور مسلم اکثریتی علاقوں کی زمینوں کو سیراب کرتے تھے اس لئے ان پر پاکستان کا حق تھا۔ زمینی حقائق کی رو سے یہ دنوں ہیڈ ورکس پاکستان کو ملنے چاہئیں تھے۔ بات چونکہ پاکستان دشمنی کی تھی اسلئے یہ دونوں ہیڈ ورکس بھارت کو دینے کافیصلہ کرلیا گیا۔اگر چہ ایک فیصلہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک ہیڈ ورکس بھارت کو دے دیا جا تا اور دوسرا پاکستان کو دے دیا جا تا لیکن چونکہ انگریز اور کانگریس دونوں اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے کہ اول تو پاکستان قائم نہیں ہونے دینا اگر قائم ہو بھی گیا تو وہ ایک ایسا پاکستان ہو گا جو لولا لنگڑا ہو گا۔ دونوں ہیڈ ورکس بھارت کو دینے کا فیصلہ اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔جب اس پر بھی بھارتی حکمرانوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے تو پھر نہروں کا پانی بھی بند کردیا گیا جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
دونوں ہیڈ ورکس بھارت کو دینے کا فیصلہ اور اس کے سات ماہ بعد پانی کی بندش نہایت ہی سنگین اور حساس ترین معاملہ تھا جس وجہ سے پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا تھایہاں تک کہ اس کی گونج دنیا کے بہت سے ممالک میں سنائی دینے لگی۔امریکہ کے ایک آبی انجنئیر ڈیوڈ ای للی اینتھال جو امریکہ میں ایٹامک انرجی کمیشن کا چئیرمین بھی رہ چکا تھا۔اس کے کانوں تک بھی اس تنازعہ کی گونج پہنچی چنانچہ وہ 1951ء میں پاکستان اور بھارت کے دورے پر پہنچا۔اس نے دونوں ا طراف میں پانی کی صورت حال جائزہ لیا اور واپس جا کر ایک طویل مضمون لکھا۔ ڈیوڈ کا سارا مضمون انجنئیررمیض احمد ملک نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے جس کے کچھ اقتباسات نذر قارئین ہیں۔ڈیوڈ لکھتا ہے ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان نہری پانی کا تنازعہ تباہ کن بارود ہے ،پنجاب کا خطہ بارود کے اس ڈھیر پر و اقع ہے اور کسی وقت بھی آگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔پنجاب اور سندھ دنیا کی بہترین خوراک پیدا کرنے والے علاقے ہیں۔ایک وقت آئے گا جب پانی نہ ملنے کی وجہ سے یہ ریگستان بن جائیں گے۔20ملین وسیع ترین قطعہ اراضی ہفتوں میں بنجر ہو جائے گا اور10ملین افراد فاقوں کا شکا ر ہو جائیں گے۔بڑی سے بڑی فوج بھی اسلحہ وبارود سے زمین اور انسانوں کو اس طرح تباہ نہیں کرسکتی جس طرح بھارت پانی بند کر کے پاکستان کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔‘‘
امر واقعہ یہ ہے کہ 1951ء میں امریکی انجنئیر نے جن خدشات کا اظہا ر کیا تھاوہ وقت کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہو رہے ہیں۔بھارت کی آبی جارحیت صرف نہروں کے پانی کی بندش تک ہی محدود نہ رہی بلکہ دریا?ں پر بھی آبی ڈکیتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔پاکستان کے لئے یہ بہت ہی پریشان کن صورت حال تھی۔بھارت کا جب دل چاہتا پانی روک کر پاکستان میں قحط کی کیفیت پیدا کردیتا اور جب دل چاہتا وافر مقدار میں پانی چھوڑ کر تباہی مچا دیتا چنانچہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس صورت حال سے بچنے کے لئے 19ستمبر1960ء کو بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا جس کی رو سے تین دریا?ں ستلج،راوی اور بیاس کا 16ملین ایکڑ فٹ پانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھارت کو فروخت کردیاگیا۔تین دریائوں کی فروخت بلاشبہ غلطی ہائے عدیم المثال تھی۔ ممکن یہ ایوب خان کی نیت درست رہی ہو لیکن بعد میں آنے والے حالات نے ثابت کردکھایا کہ ایوب خان کایہ فیصلہ قطعی غلط تھا۔ اس فیصلہ پر یہی کہا جاسکتا ہے
دہقان وکشت وجوئے و خیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
تاہم جس مصیبت سے بچنے کی خاطر ایوب خان نے تین دریا فروخت کئے۔۔۔۔وہ مصیبت پھر بھی نہ ٹلی بلکہ ہنوز ہمارے گلے میں پڑی ہوئی ہے بلکہ وقت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ اسلئے کہ ہمارا سامنا بھارت سے ہے۔۔۔۔اوربھارت سے شائع ہونے والے ایک دلت اخبار نے لکھا تھا ’’برہمن ذلت اور کمینگی میں اپنی مثال آپ ہے۔‘‘اس کمینگی کی مثال سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور باقی تین دریاسندھ جہلم اورچناب پر بھارت کی آبی جارحیت بلکہ سر عام و دن دیہاڑے ڈاکہ زنی شروع ہے۔جس وجہ سے پاکستان کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں،زیر زمین کی سطح خطرناک حد تک نیچے جارہی ہے۔آج جبکہ مارچ کے مہینے میں دنیا پانی کا عالمی دن منا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان موثر انداز میں بھارت کی آبی ڈاکہ زنی کے خلاف آواز اٹھائے اورامن عالم کی ٹھکیدار بڑی طاقتیں بھارت کو آبی جارحیت سے روکیں۔اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں ، پانی اور ارضیات کی بقا وحفاظت کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کابھی فرض ہے کہ وہ بھارت کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت سے روکیں اسلئے کہ مسئلہ محض دو ممالک کا نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں اور زمین کا بقا کا ہے۔