کوئی ایسے بھی جاتا ہے 

Mar 22, 2023

صوبیہ خان نیازی


ثوبیہ خان نیازی
ہر عامی میں ایک خاص ہوتا ہے ۔ اس خاص کو اپنے خاص ہونے کا بھی شائد علم نہیں ہوتا ۔ یہ سنہرے لفظ واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ کے ہیں ۔میں ذرہ ناچیز یہ سمجھتی ہوں خاص بندہ خود کو کبھی خاص دکھائی دینے کی کوشش ہی نہیں کرتا، وہ عام بندوں میں خود کو اور بھی عام کر لیتا ہے۔اندر کے معاملات، دل کے فیصلے  دل کی طاقت کے طلبگار ہوتے ہیں۔رب بھی بندے کے دل کو دیکھتا ہے اور اس  کے دل کے مطابق ہی اس کی حیات و ممات کے فیصلے کرتا ہے۔دل کے سادہ،بھولیاور من کے سچے انسان اس دنیا میں ایک نعمت کی طرح ہیں۔ کہتے ہیں  ایسے اللہ لوک انسانوں کی بددعا سے بچنا چاہیے، ان سے دعائیں لینی چاہیئے اور ان سے  رحم کا معاملہ کرنا چاہیئے۔ اس دور کے مصروف ترین انسان کا المیہ یہ بھی ہے کہ جب اس کے پاس سے کوئی اس کا پیارا ہمیشہ کے لیے چلا جاتا یے پھر اسے اس کی یاد آتی ہے اس کی وقعت اور قدر کااحساس ہوتا ہے۔ پھر وہ سوچتا ہے یار وہ تو بڑا قیمتی اور  نایاب آدمی تھا اس کی تو بڑی اہمیت تھی وہ تو ہمارے درمیان ایک برکت تھا ۔
میں اپنے آپ کو ہمیشہ سے خوش بخت اس لحاظ سے بھی سمجھتی رہی ہوں کہ لوگوں کو ایک ماں کا پیار ملتا ہے مگر مجھے بیک وقت تین ماؤں کا پیار میسر رہا ہے ایک میری وہ ماں جس نے مجھے جنم دیا ایک میری ماں کی بہین میری خالہ جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا سارا وقت گزرا اور مجھے ان سے عشق کی حد تک لگاؤ رہا ہے 
ایک میری پھوپھو جن کا ساتھ میرے ساتھ بچپن سے تھا ، وہ میری ماں نہیں تھیں لیکن ان کا خیال کرنے کا انداز ان کا میرے ساتھ پیار ان کی دعائیں ماں کی دعاؤں جیسی تھیں ۔ وہ میرا انتظار کرتیں تھیں۔ مجھے دعائیں دیتی تھیں۔ ہم نے انہیں ماں سے بڑھ کے اہمیت دی ہوئی تھی۔ وہ حقیقت میں درویش عورت تھیں سادہ جیسے ایک  ملنگنی سی ہوں۔میں اپنے ارگرد عملی کردار کے لوگوں کو تلاش کرتی ہوں وہ لوگ جو  دو رخے چہرے نہ رکھتے ہوں، جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور جن کے دل کی سچائی اور خلوص ان کے چہروں سے خدا ظاہر کر رہا ہو ۔میں نے اپنی پھوپھو جیسی کوئی عورت اپنے خاندان میں نہیں دیکھی 
لالچ اور طمع سے پاک تھیں ۔سارا سارا سیزن دو تین کپڑوں کے جوڑوں میں گزار دیتی تھیں۔آج تک کوئی پیسہ پاس نہیں رکھا تھا جب کسی بہین بھائی نے کوئی پیسا یا کپڑا دینا تو اسے یہ کہہ کے واپس کر دینا کہ میں نے کون سے کہیں پیسے خرچ کرنے ہیں اور کپڑے میرے پاس موجود ہیں جب پھٹیں گے تو اور لے لوں گی یا پھر یہ کہ میری ابو کی طرف سے کہ لے دے گا ۔وہ مکمل طور پہ میرے ابو پہ انحصار کرتیں تھیں اور ابو کہہ رہے تھے آپا نے کبھی مجھ سے کچھ نہیں مانگا تھا آج تک، ابو کبھی انہیں کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیتے تھے۔
معزز قارئین آپ شائد حیران ہوں یا پھر بندہ سوچتا ہے یہ کس دور کی باتیں لکھ رہی ہوں میں، مگراللہ جانتا ہے میرے  دل سے نکلے ہوئے الفاظ میں ایک لفظ بھی  مبالغہ آمیز نہیں ۔ وہ ایسی ہی تھیں اب دینا سے گئی ہیں تو ہمیں احساس ہوا ہے وہ کیا تھیں، ان کی موت کیسے واقع ہوئی آج سے چار سال پہلے انہیں فالج کا اٹیک ہوا تھا ان کی ایک سائیڈ مکمل مفلوج ہو چکی تھی، مجھے پتہ چلا تو میں اسی رات لاہور سے گاؤں آگئی اور سارا راستہ دعا کرتی رہی یا اللہ انہیں کسی کا محتاج نہ کرنا ہمارا تیرے علاؤہ کوئی نہیں ۔گھر میں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو انہیں سنبھال سکتا ۔اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے ۔وہ ہر بیسہارا کا آسرا ہے وہ کسی پہ اس کی وسعت سے بڑھ کے بوجھ نہیں ڈالتا اسے معلوم ہے کسے کس جگہ پہ رکھنا ہے۔کتنا بوجھ ڈالنا ہے ۔پھوپھو کے مفلوج جسم نے چند ہی دنوں میں حرکت شروع کر دی اور پندرہ دن کے اندر اندر وہ مکمل ٹھیک ہو گئیں اور اسی روٹین سے اپنے  کام کرنے لگیں ۔
ڈاکٹر نے کہا تھا واک نہیں چھوڑنی اور وہ مرنے کے دن تک واک باقائدگی سے کرتیں رہی ۔ہر روز نماز پڑھنے کے بعد اپنی زمینوں کی طرف جاتیں اور پھر آکے ناشتہ بنایا کرتیں تھیں ۔اب ان کی تعزیت کے لیے آنے والی ہر خواتین یہ کہہ رہی تھی ۔
جب بھی کہیں بیھٹتیں ثوبیہ تمھارا ذکر ضرور کرتیں تھیں ۔ایک انٹی تو کہہ رہی تھیں ہم نے پہلی کوئی پھوپھو دیکھی ہے جو ہر وقت اپنی بھتیجی کا ذکر کرتی رہتی ہے ۔ان کے کوئی اولاد نہیں تھی ۔جوانی میں بیوہ ہونے کے بعد بس ابو کے گھر میں ہی جینا مرنا تھا ان کا ،ہمیشہ دوسروں کے کام آتی تھیں ،کسی پہ کوئی بوجھ نہیں ڈالا کبھی ،میرے ابو سب سے چھوٹے تھے۔
چھ بہنوں کے بعد پیدا ہونے والے  میرے ابو کے ساتھ ہمیشہ سے یہ ساری بہین جیتی مرتی رہی ہیں ۔اور بھائی نے بھی حق ادا کیا کہ ارگرد کے سب لوگ ابو کو شاباش دیتے رہے کہ ایسا بھائی کوئی نہیں دیکھا۔ آج میں پھوپھو کے بکسے سے وہ خط نکالے بیٹھی پڑھ رہی ہوں جو میرے ابو نے میرے  بچپن میں میری دادی اماں کو لکھا ہوا تھا ۔ابو ان دنوں امریکہ میں تھے ۔اس خط میں بار بار پھوپھو کا ذکر تھا۔پھوپھو نے وہ خط سنبھالا ہوا تھا ۔ جسے وہ پڑھنا نہیں جانتی تھیں۔ 
ان کی عمر تراسی سال تھی اور اس عمر میں وہ مکمل طور پہ سیدھی چلتی تھیں کسی پہ کوئی بوجھ نہیں ڈالا تھا۔ایسے سادہ لوح انسان اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ کہتی تھیں یہ جو میں بیماری سے اٹھ بیٹھی ہوں یہ مجھے مہلت ملی ہے اب میں رات بھر استغفار پڑھتی رہتی ہوں،  کبھی کسی کا برا نہیں کیا۔ موت سے کیا ڈرنا موت تو رحمت ہو گی۔جس دن اس دنیا کو خیر باد کہنا تھا ،صبح نماز قرآن پڑھا واک کی ابو کے لیے ناشتہ بنایا خود ناشتہ کیا ،اور پھر کچھ دیر بعد ابو سے کہنے لگی مشتاق میں چار سال سے بیمار ہوں تم نے میری بہت خدمت کی یے لیکن آج میں نے مر جانا ہے۔ میں ذرا اصغری اور زبیدہ سے مل آؤں اب تم نے کوئی بات نہیں کہنی۔
میری امی اور خالہ سے ملنے کے لیے ان کے گھر گئیں وہاں ان سے کوئی دوگھنٹے باتیں کرتیں رہیں۔پھر اپنی بہین سے ملی اس سے باتیں کیں اور اسے بھی یہی کہا میں نے آج مرجانا ہے تم سب ٹائم پہ پہنچ جانا ۔کوئی ایسے بھی جاتا  ہے کیا ۔ میں حیران ہوں بندہ بیمار ہو تو وہ کہتا ہے پتہ نہیں شائد میں نے اب دنیا سے چلے جانا ہے۔ وہ بیمار نہیں تھیں انہیں جیسے کوئی الہام ہو گیا تھا۔
سب بہنوں سے مل کے گھر واپس آئیں تو کچھ دیر بعد ابو سے کہنے لگیں میرا دل گھبرا رہا ہے ۔ بس وہی موت کی آغوش میں جانے کا وقت تھا ابو نے سب کو بلا لیا ڈاکٹر بھی آگیا  سب سے یہی کہہ رہی تھیں مجھے کوئی بیماری نہیں۔ لیکن جانا تو ہے نا اور میری خالہ کہہ رہی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے آپا کا چہرہ زرد ہو گیا تھا  پورا جسم جیسے کسی نے برف میں لگا دیا ہو ۔اور بار بار مجھے میرے بھائیوں اپنی ایک بہین جو ان کے پاس نہیں تھے ، آوازیں دے رہی تھیں ۔اور کہہ رہی تھیں  اب کیا کرنا ہے  چند ہی لمحوں میں ان کی روح پرواز کر چلی تھی ۔میں سوچتی ہوں کیسے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو نہ ہی زندگی میں اور نہ ہی مرتے وقت کسی کو کوئی تکلیف دیتے ہیں،  کسی  پہ ذرہ بوجھ نہیں ڈالتے، کسی کو خدمت کا موقع نہیں دیتے ،سب کی حسرت رہ جاتی ہے کہ کاش ہم خدمت کر سکتے  وہ اللہ لوک جن کا سہارا صرف ان کا رب ہوتا ہے وہ انہیں کسی کا محتاج نہیں کرتا ،اولاد والے اولاد کا مان رکھتے ہیں پیسے والے پیسے کا مان رکھتے ہیں 
اور اللہ والے صرف اللہ پہ مان رکھتے ہیں، اس پہ بھروسہ رکھتے ہیں، اور بیشک ہم جیسا اپنے رب پہ گمان رکھیں گے وہ ہمیں ویسے ہی نظر آئے گا ویسے ہی ہمارے ساتھ معاملات رکھے گا۔ میں بھی  درویشوں، سادہ لوح اور دل کے سچے اور بھولے بھالے لوگوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتی ہوں  مجھے ان سادہ لوح سادہ دل والوں سے محبت ہے میرے لیے ان کا ہونا زندگی میں ایک نعمت کی طرح ہے ۔میں جہاں بھی چلی جاؤں اپنی مٹی سے جڑی رہتی ہوں ۔میں پیپل والے بابے سے بھی پیار کرتی ہوں جو میرے رشتے میں دادا ہی لگتے ہیں ۔ وہ ایک ولی اللہ تھے ۔اس جگہ عجیب سا سکون ہوتا یے جس کو لفظوں میں نہیں لکھا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پھوپھو کہتی تھیں وہ ہمارے بابا ہیں،  میں بھی بابا ہوں۔میرا دل ان کے لیے بہت دکھی ہے میرے لیے دعائیں کرنی والی ایک ہستی چلی گئی ہیں ۔لیکن دل یہ بھی کہتا ہے جن سے محبت ہو وہ کبھی جدا نہیں ہوتے ان کی دعاؤں کا فیض ہمیشہ جاری رہتا ہے ان کی پاکیزہ روحیں ہمارے لیے دعا گو رہتی ہیں ۔پھوپھو اللہ کی امان میں
ثوبیہ خان نیازی

مزیدخبریں