پاکستان کی سلامتی، معیشت اورسیاست!


کنکریاں۔ کاشف مرزا
پاکستان کی معیشت، سیاست اورامن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشاروبدامنی ہو گی، جس سےعالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کیلیے مزید ابتری ہو گی۔اگر عمران خان کو آئندہ چند دنوں میں گرفتار کیا گیا توانتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے، نتیجتاً کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کیا تباہی مچ سکتی ہے۔ پاکستان کو 2016-17ءمیں اقتصادی درجہ بندی کے لحاظ سے 24ویں نمبر پر دیکھتے ہوئے عالمی مالیاتی ایجنسی نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ ملک 2030ءتک20 G ممالک میں شامل ہوجائے گا لیکن 2022 ءمیں یہ دنیا کی معاشی فہرست میں 47ویں نمبر پر آگیا۔ جس کی بنیادی وجہ مو¿ثر منصوبہ بندی کا فقدان اورغلط معاشی فیصلے ہیں۔ سالانہ میزانیوں میں محاصل کا حجم اخراجات کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہونے سے 2018ءتک غیر ملکی قرضوں کا حجم جو 28 ہزار ارب روپے تھا، اس وقت 60 ہزار سے متجاوز ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن بھی ہماری معاشی زبوں حالی کا ایک بڑا سبب چلا آرہا ہے۔ دیوالیہ پن کی حدتک پہنچ جانے والی معیشت کو دیکھ کراس وقت کوئی بھی مدد دینے کو تیار نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے میں مختلف ممالک کو قرضوں کے اجرا کے حوالے سے اتنی لچک ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ انکی واپسی یقینی بنانے کیلئے قرض لینے والے ممالک کو ایک فریم ورک مہیاکرتا ہے، جس سے ٹیکسز کا حجم اس حد تک بڑھنا یقینی ہوجاتا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی آسان ہوجائے۔ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان سمیت 94 ممالک پراس کا کل واجب الادا قرضہ 148ارب 30کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ اس لسٹ میں ارجنٹائن 42ارب ڈالرکے قرض کے ساتھ نمبر ون ہے جبکہ پاکستان 7ارب ڈالرکے قرض کے ساتھ پانچواں نمبر اور ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں ہر آنے والی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنے دور اقتدار تک محدود چلی آئی ہے چنانچہ ہر بار قرضے لیتے وقت مزید زرائع آمدن پیدا کیے بغیر انکی واپسی کا خیال نہیں رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ آج آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر پروگرام کو آگے بڑھانے اور مزید ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے 9ویں جائزہ اسکیم مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک زرمبادلہ کے ذخائر جو بتدریج گرتے ہوئے3 ارب ڈالرکے پہنچ چکے تھے، حکومتی کوششوں سے انکی مزید گراوٹ کا عمل رک گیا ہے اور اس وقت ساڑھے چار ارب ڈالر کی سطح پر ہیں۔ پاکستان اس وقت زرِمبادلہ کے ذخائر میں غیرمعمولی کمی کا سامنا کررہا ہے۔ تاہم زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی خوش خبری نے امید پیدا کی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل رہا ہے، ملک کے مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق، گذشتہ ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر 4.3 ارب ڈالر ہوگئے ہیں جسکی وجہ چین سے کمرشل قرض کے 50 کروڑ ڈالر کی وصولی ہے۔ یوں ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اس وقت مجموعی طور پر 9.75 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ قومی ذخائر میں تین فروری سے تاحال4.1ارب ڈالر اضافہ ہوا جو ایک مہینے کی برآمدات کیلیے کافی ہیں۔ اس سے گرتے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں مدد حاصل ہوگی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کے حصول میں غیرمعمولی مشکلات کا سامنا رہا ہے تاہم اب امید ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ جلد مذاکرات ہوجائیں گے جس کے بعد پاکستان کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی اور ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ اگر آئی ایم ایف مطلوبہ قسط جاری کردیتا ہے تو مزید قرضوں کے اجراءکیلئے دیگر ممالک اور اداروں میں بھی لچک پیدا ہوگی۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی حمایت کی ہے اورسرمایہ کاری کےفروغ میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ کام کرنے پر زور دیا ہے۔
عشروں سے جاری معاشی بے ضابطگیوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ توانائی کے شعبے کا خسارہ 2500 ارب روپے گردشی قرضے سے تجاوز کر چکا ہے۔اگلے تین ماہ میں پاکستان نے تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہے اور سال بھر میں تقریباً 26 ارب ڈالرز مزید درکار ہوں گے۔ حکومت یہ فنڈز کیسے مینج کرے گی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو اس میں اتنا تیل ہے کہ وہ50سال تک ملکی ضروریات پوری کر سکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، پنجاب کی یہ زمین تقسیم برصغیر سے قبل نہ صرف پورے ہندوستان کو غذائی اجناس فراہم کرتی تھیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی بھیجی جاتی تھیں اور اب بھارت اپنی مشرقی پنجاب کی نسبتاً کم زرخیز زمینوں سے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے اتنی پیداوار حاصل کر رہا ہے جوہمارے ہاں ہونے والی فی ایکڑ پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ اگرانصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں وکاشتکاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انہیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔ مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے 5سالوں میں بہتر رجحانات ومارکیٹینگ کے زریعے 50 ارب ڈالرزاور برآمدات کو 40ارب ڈالرزتک بڑھایا جا سکتا ہے۔ نئے ڈیمزاور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دورکرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کئے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کیلئے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھلوں وسبزیوں کو کولڈ سٹوریج میں رکھنے اور انکی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکےانہیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہےاورمقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔ تیل وگیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ دیگرممالک کے مقابلے ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقعوں و انفراسٹکچر کی ترقی کی بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کیجانب ہے۔اس لئے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کی بجائے امدادو قرضوں پر گزارہ کرنےمیں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان1947کی بہ نسبت آگے اور ایک مظبوط ایٹمی ملک ہے۔ اگر سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل ومحنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کئے جا سکتے ہیں۔ غیرملکی امدادوں کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔ لازم ہے کہ حکومت و اپوزیشن تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کیلئے مربوط پالیسی تشکیل دیں اور ملکی ترقی کیلئے حل نکالنا چاہئے۔ معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، پاکستان کیلئے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کیلئے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔ 2023 اقتصادی بحالی کا سال ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آنے والا بجٹ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں قومی کفایت شعاری اور ایکسپورٹ لیڈ انڈسٹریل گھروتھ وڈویلیپمنٹ پروگرام اہم ہے جودور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔ میثاق معیشت کیلئے تمام سیاسی پارٹیز کاایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور منصوبہ بندی میں شامل ہونا حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جو ہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن