بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
ماہ صیام کا قیمتی اور سحر انگیز دوسرا عشرہ سائہ فگن ہونے کو ہے۔اہل ایمان برکتوں' رحمتوں' سیادتوں، سعادتوں اور نعمتوں کی لوٹ سیل سے شبانہ روز استفادہ کررہے ہیں۔ ایک ہم ہیں جو تھوڑے منافع اور چند سکوں کی خاطر روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمیں ماہ صیام کا خیال پہلے عشرے میں نہیں آیا ،ہم دوسرے عشرے میں بھی مصنوعی گرانی سے باز نہیں آئیں گے اور ہماری منافع خوری کی روٹین آخری عشرے میں بھی جاری رہے گی۔معلوم نہیں خدائی خوف سے ہم کب روزے داروں پر مہربان ہوں گے؟گزشتہ دنوں سکول کی ایک تقریب کے دوران بچے نے سوال پوچھا محترم جناب مہنگائی صرف رمضان میں ہی کیوں ہوتی ہے۔ دوسرا سوال تھا کہ وہ اشیاء جو روزے داروں کے زیر استعمال ہیں ان کی قیمتیں ہی کیوں بڑھا دی جاتی ہیں؟ قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ ہماری سرکار دعوے اور اعلانات سے آ گے نہیں بڑھتی!! پورے ہا ل میں معصومانہ سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو اپنے ہی بچوں کے لیے مشکل بنا دیا۔ پاکستان میں کوئی شہر ایسا نہیں جہاں غریب والدین اپنی اولاد کو اچھے انداز سے روزہ افطار کروا سکیں۔ شہر شہر پھر لیں آپ کو کوئی مثالی اور ایسا سہولت بازار نظر نہیں آئے گا جہاں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں یکساں اور مستحکم ہوں۔ ہم اور ہمارے انداز نے غربیوں اور محنت کشوں پر روزے ''بھاری ''کر دئیے جاتے۔ کئی والدین ایسے بھی ہیں جوسحری اور افطاری کے وقت اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دیتے ہیں۔
مقام شکر ہے کہ پورے ملک میں جگہ جگہ افطار دستر خواں کے چراغ روشن ہیں۔ آزاد کشمیر ، گلگت و بلتستان سمیت پاکستان بھرمیں سماجی اداروں اور سوشل ورکروں کے افطار دستر خواں موجود ہیں۔ مگر کئی سفید پوش ایسے بھی جو اپنے بچوں کے سامنے اپنا بھرم نہیں توڑ سکتے ہم جب افطاری سے قبل لائن میں خواتین ،بوڑھوں اور بچوں کو دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ان غریب لوگوں کی تکلیف اور پریشانی کس کے سر ہوگی؟
قرآن پاک میں ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے کہ ''تم میں سے ہر کسی سے اس کی ذریت کی بابت سوال ہوگا'' یعنی تم جس کنبہ اور قبیلہ کے سربراہ( حاکم ) تھے ان کے بارے میں باز پرس کی جائیگی۔ 25 کروڑ افراد میں سے ساڑھے بارہ کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ساڑھے بارہ کروڑ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے حکمران جو کچھ کررہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے !! یہ درست ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کا حجم ساڑھے 7سے بڑھا کر 12.5ارب روپے کرنے کے ساتھ اس کا دائرہ کار بڑھانے کی ہدایت بھی کی۔ مجموعی طور پر رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مستحق افراد کو بازار سے 30 فیصد ستی اشیاء دی جائیں گی ، آٹے پر فی کلو 77 جبکہ گھی پر 70 روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی۔ پنجاب حکومت کا بھی 30ارب روپے کا نگہبان رمضان پیکیج جاری ہے جو صوبے کے 64لاکھ سے زائد خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ سندھ حکومت نے بھی 22.5ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کی 60 فیصد آبادی کو رمضان میں 5ہزار روپے نقد دینے کی منظوری بھی دی تھی جو بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کے ذریعے دیے جائیں گے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے احساس پروگرام کے تحت رمضان میں مستحق افراد کو نقد 10ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔ بلوچستان حکومت بھی خدمت رمضان میں سرگرم ہے۔ پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور انہیں بھرتی ہی اس مقصد کیلئے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورنس کو بہتر بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔اسی کام کیلئے انہیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر ،عملہ اور دیگر مراعات و سہولیات اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے ساری توانائی اور وسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لئے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے۔ہم بار بار اس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے مہنگائی کو نہ روکا تو ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔حکومت کو اس مہنگائی کا نوٹس لینا چاہیے اور ابھی سے کوئی سد باب کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ا ن خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیاے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں الٹی گنگا بہتی ہے اور ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں،عوام پر مہنگائی کے نشتر اس بے رحمی سے برسائے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ آخر یہ مجسٹریسی نظام کس مرض کی دوا ہے کہ مہنگائی تو روز بروز ترقی کر رہی ہے لیکن مجسٹریسی نظام تاحال کارگر ثابت نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلٹی اسٹورز کے کئی ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے فروخت کرتے ہیں۔ ملک کی آبادی 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورزکی کل تعداد 5491ہے۔اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریںاور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاﺅں کے اقدامات کیے جائیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی ہے للہ پاک اہل اقتدار کو ہمت اور توفیق دے وہ روایت سے ہٹ کر اہل وطن کی خدمت کرسکیں۔
اپنے لئے تو سب ہی جیتیں ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا!!