ڈاکٹر ندا ایلی
آج ساسو ماں نے پوچھا تھا کہ ماں بریانی میں کتنی پیاز ڈالتی تھیں تو بخدا مجھے بالکل یاد نہیں تھا ۔ مصالحہ کوٹنے کی سل بٹا لئے جو میں چوکڑی مار کر زمین پہ بیٹھ گئی تو کانوں میں ماں کے سل بٹا سے مصالحہ کوٹنے کی آواز آتی رہی ۔۔۔ کہ کبھی غور نہ کیا تھا ماں کتنی دیر مصالحہ کوٹتی رہتی تھیں۔۔۔ وہ اچار خشک کرنے کب چھت پر جاتی تھیں ۔ وہ املی کو کتنی دیر بھگوتی تھیں ۔۔ وہ توا کتنی دیر گرم کرتی تھیں ۔۔ مجھے کچھ بھی تو یاد نہیں تھا ۔۔۔ بیچ میں کتنے موسم بدلے ۔۔۔آج میں آنگن میں پھیلے کپڑے اتارنے گئی تو ماں کی بہت یاد آئی تھی ۔۔ کہ انہیں تیز دھوپ میں ڈالے کپڑوں کا بھی علم ہو جاتا تھا کہ وہ کب سوکھے۔۔ پھر وہ بھائی کو ڈانٹ ڈانٹ کر بھیجا کرتی تھیں کہ کپڑے اتار کر لے آﺅ اور بھیا جانے پر تیار ہی نہں ہوتا تھا۔۔ لیکن میرے آنگن میں پھلے کپڑے ابھی گیلے تھے ۔۔۔میں چپ چاپ اندر چلی آئی کہ ماں کی ان لکھے لفظوں کو پڑھ لینے کی طاقت اور صلا حیت ابھی مجھ میں پیدا نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔ پروین شاکرکا مصرع یاد آیا ۔۔۔ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ۔۔ ماﺅں کے سمجھنے کو عمر چاہئیے جاناں ۔۔۔۔۔