دیساں دا راجہ ....شہید راجہ اسد حمید



 یادیں ....شبانہ یوسف
shabana.yousaf2015@gmail.com

اپنے راجہ کو کیسے بھلا دوں؟ 2009 میں لگا زخم ابتک تازہ اور ھرا ہے، ظالموں نے خون کی ھول کھیل کر سمجھ لیا وہ ہم سے راجہ چھین لیں گے یہ ان نادانوں کی بھول تھی۔ ہم سب کا راجہ ہماری یادوں اور باتوں میں ہمیشہ جاویداں رہے گا۔ شہید کی یادوں کے گلاب کل کی طرح آج کی مہکاریں تقسیم کررہے ہیں۔ اللہ کریم راجہ اسد حمید کے درجات بلند ترکرے ، انہیں اپنے خاص اور مہربان شخصیات کی فہرست میں شامل رکھے آمین۔ سوچتی ہوں راجہ اسد حمید کے تعارف کے لیے کون سے الفاظ کا چناو¿ کروں۔ اسے انسان دوست یا علم دوست کہوں ،خدمت انسانیہ کا استعارہ کہوں‘ دوست نواز‘ ہمدرد‘ غم گسار‘ دلوں میں گھر کرنے والا یا دیساں دا راجہ پکاروں؟ سب احباب اسے اچھے القاب سے پکارتے رہے مگر ہم شہید کو سب کا راجہ سمجھتے تھے اور وہ آج بھی ہم سب کا راجہ ہی ہے ....پندرہ سال بیت گئے لگتا ہے کل کی بات ہے،ان پندرہ برس میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب راجہ اسد کا ذکر نہ ہوا ہو ۔اب تو راجہ اسد کی بیٹی بھی اپنے والد کے کردار پر نازاں ہے۔ اس کی پیدائش والد کی جدائی کے بعد ہوئی تھی وہ اپنے خیالوں میں شفیق باپ کا نقشہ موجود رکھتی ہے ۔وقت اس قدر تیزی سے گزر گیا راجہ اسد کی بیٹی ماشاءاللہ جوانی میں قدم رکھ چکی ہے وہ اپنے والد کی شبیہ ہے۔۔اللہ ہماری صاحب زادی کو سلامت رکھے، راجہ اسد کے چاہنے والوں کو اسکی بیٹی میں شہید کی مماثلت نظر آتی ہے ۔ اسد کی بوڑھی ماں کو پوتی میں اپنا بیٹا دکھائی دیتا ہے ۔
یادوں کے دریچوں کو جب کھولا جائے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل بات ہو کہ کیا کچھ ہوگیا۔ انسان پھر گزرے ہوئے وقت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا اگر یادیں اچھی اور خوشگوار ہوں تو وہ لمحے بہت مختصر لگتے ہیں لیکن اگر یادیں اچھی اور خوشگوار ہوں تو وہ لمحے بہت مختصر لگتے ہیں لیکن اگر یادیں تلخ ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا زندگی اسی موڑ تک رک سی گئی ہے ہر انسان کو اپنی تلخ اور شریں یادوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور غور کیا جائے تو زندگی نام ہی غم اور خوشیوں کا آمیزہ ہے۔ جس طرح انسان اپنی تخلیق سے موت تک ایک جیسا نہیں رہتا اسی طرح زندگی بھی ایک جیسی نہیں رہتی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے دل ودماغ کو بھی ڈھلنا پڑتا ہے۔ کس کو کیا خبر اگلے لمحے کیا ہو جائے ہمیں کیا خبر تھی کہ ماہ مارچ جس کا سوچتے ہی گل وگلزار اور پیاروں کا خیال آتا ہے اور خوبصورت موسم کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ہر طرف رنگینی اور سبزہ چھا جاتا ہے کیا خبر تھی کہ ہمارے لئے مارچ ایسی دکھ کی دو گھڑی لائے گا جس کے نقوش انمٹ ہوں گے۔ 26 مارچ 2009ءہمارے راجہ اسد حمید کی زندگی کا آخری دن تھا جب راجہ ہمیشہ کی طرح بڑے خوشگوار اور پراعتماد انداز سے سب کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ کے نکلا ہمیں کیا خبر تھی کہ راجہ بن سنور کے اپنی مخصوص اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ کسی اور منزل کی طرف جارہا ہے اسی دن رات دس بجے وہ قیامت خیز منظر دیکھا جو خدا کسی نہ دکھائے۔راجہ کی اپنی گاڑی میں جو گھر کے اندر آنے کے لیے رکی اور اگلے ہی لمحے یہ چاند سا ہنستا مسکراتا چہرہ گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور راجے کی مسکراہٹ خوبصورت جوانی اور ایک مثبت تعمیری سوچ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں من مٹی تلے دبا دیا۔ افوس آہ وبقاءکے سوا کچھ بھی نہیں کرسکے لیکن برداشت اور صبر سے ظالموں پر یہ بات کر دیاہے کہ اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہے وہ کسی ناحق کا خون ضائع نہیں ہونے دیتا۔ آج راجہ اسد حمید کو ہم سے بچھڑے 15 سال بیت گئے لیکن راجہ جس طرح اپنی زندگی میں چمکتا دمکتا ستارہ تھا آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ وتابندہ ہے اور رہے گا اور راجہ کی کمی عمر بھر محسوس ہوتی رہے گی
مت سمجھو ہم نے بھلا دیا
یہ مٹی تم کو پیاری تھی
اس مٹی میں سلا دیا

ای پیپر دی نیشن