ذکروفکرِ رسول ﷺ کی ایک انوکھی بیاض

سرکار ہردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے اولادِنرینہ عطاکی لیکن جلد داغِ مفارقت دے گئی۔ قعرمذلت میں گرے ہوئے دشمنان اسلام نے آپ کو ”جڑکٹا“ہونے کا طعنہ دیا۔ اسی کے جواب میں قرآن مجیدکی سورة کوثرنازل ہوئی۔ تین آیات پر مبنی اس مختصرترین سورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے لیے وعید ہے۔ تاریخ کے بہاﺅ نے فیصلہ صادر کیا،آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے اور”ورفعنا لک ذکرک“کے ارشاد عالیہ کے مطابق اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کوعام کیا ہے۔انسان بھی عجیب مخلوق ہے ،اس نے خود کو ”حنوط“ کرنے کیلئے اہرام تعمیر کروائے، تاج محل بنوائے، کیا کیا یادگاریں بنوائیں لیکن عبر ت کی نشانی بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن تو بے نام ہوگیا لیکن آپ کی مدحت کا سفر تسلسل سے جاری ہے۔وقت کی گرد نے بہت سے چہروں کے نقش معدوم کردئیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال پرانوار میں مزیداضافہ ہورہاہے۔ آپ کا اسم مبارک دنیامیں مظلوموں کا سہارا اور عقبیٰ میں نجات کا ذریعہ ہے۔بہ قول محشر بدایونی:
کیا نام ِ محمد ہے کہ جس نام میں آجائے
اک حسنِ توازن سحر وشام میں آجائے
مدحت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاایک ذریعہ آپ کی نعت ہے،دنیا کے گوشے گوشے سے ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائیں بلندہوتی ہیں۔ نعت شریف کی ہمیشہ بہار صنف کو عوام وخواص میں قبولیت ملی ہے۔ اردو زبان وادب میں بھی یہ ایک شاند ار روایت بن چکی ہے۔ گذشتہ چنددہائیوں میں کثیر تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ مختلف ادارے نعت گوئی کی صنف کے فروغ کیلئے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ہمارے ہاں سرکاری سطح پر بھی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔انفرادی طور پر ہونے والا کام دل کی طمانیت کا باعث ہے۔یہاں نعت رسول مقبول کے فروغ کیلئے کوشاں ایک سکالر ڈاکٹر نوید عاجز کا خصوصی تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ ان کا تعلق حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر کے شہر پاک پتن سے ہے، پاک پتن وہ تاریخی شہر ہے جس کے درودیوار نے بہت سے زمانوں کے سردوگرم کا مشاہدہ کیا ہے۔اسی شہر سے اردو شاعری کا اکھوا پھوٹا تھا۔ ڈاکٹر نوید عاجز گورنمنٹ فریدیہ کالج پاک پتن میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ ان کے ادبی کارناموں کی متعدد جہتیں ہیں لیکن یہاں نعت گوئی کی صنف کیلئے سی جانے والی خدمات کا ذکر مقصود ہے۔ ڈاکٹر نوید عاجز نے ایم فل ”سیدریاض حسین زیدی کی نعتیہ شاعری “کے عنوان سے کیا تھا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع ”اردو میںنعتیہ قصیدہ نگاری کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ“ تھا۔ ان کی قیام گاہ پربزرگ شاعر شریف ساجد صاحب کی سرپرستی میں ادبی تنظیم”اظہارِ نو“کے ماہانہ طرحی مشاعرے کے انعقاد کا سلسلہ جاری وساری ہے ۔حال ہی میں انھوں نے ساہیوال ڈویژن کے شعرا کی نعتیہ شاعری کا خوب صورت انتخاب ”ساہیوال کے نعت گو“کے عنوان سے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں دو سوچونتیس شعرا کی نعتیں شامل کی گئی ہیں۔ تنقید وتحقیق کے طالب علموں کی آسانی کیلئے ان شعرا کا مختصرتعارف بھی درج کردیا ہے تاکہ تنقید وتحقیق کے طالب علموں کو آسانی رہے۔ یہ کتاب دیکھنے میں تو ایک محدود سے خطے کی نعتیہ شاعری کا انتخاب ہے لیکن دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو اس علاقے کی ہر معروف یاغیرمعروف شاعر کی نعتیہ شاعری کا انسائیکلو پیڈیابھی ہے۔ مرتب ڈاکٹر نویدعاجز نے کتاب کے پہلے باب ”یاران ِ عدم آباد“میں ان صاحب دیوان شعرا کی نعتوں کوشامل کیا ہے جواس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ دوسرے باب ”یاران ِ بزم“ میںصاحب ِ دیوان شعرا کی نعتیہ شاعری یک جا کی گئی ہے۔کتاب کے آخری باب ”غزل گوشعرا کی نعت“ میں شعرا کی ایک کثیر تعداد کی نمائندہ نعتیں شامل کی گئی ہیں۔یہ ایک عمدہ روایت ہے اور وطن عزیز کے باقی شہروں میں بھی اس کے احیا کی ضرورت ہے۔سچ کہیے تو یہ نعت گوشعرا کے تذکرے اورکلام کا انتخاب ہی نہیں بلکہ اس علاقے کی نعتیہ شاعری کی تاریخ بھی ہے۔پاک پتن ادبی لحاظ سے ایک توانا ادبی روایت کا سرچشمہ ہے۔اس سرزمین پر بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ،بدر الدین اسحاق،سیدوارث شاہ اور مولانا عبداللہ المعروف عبدی سے باقر شاہجہان پوری، سعیدآسی اورظہورحسین ظہورجیسے شعرا پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر نوید عاجز کی نعتیہ شاعری کا یہ انتخاب صدیوں پر مشتمل نعتیہ شاعری کی روایت کا ایک خوب منظرنامہ تشکیل دیتی ہے۔خود اس کتاب کا آغاز میں مرتب کا تحریر کرد ہ دیباچہ بھی خاصے کی چیز ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے ”ساہیوال کانعتیہ منظرنامہ“ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ بھی شامل کردیاہے جس کا مطالعہ معتبر حوالہ جات کی روشنی میں اس خطے کی نعتیہ شاعری کی تاریخ بیان کرتا ہے۔قارئین کے لیے مدحت ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند شعری مثالیں درج ہیں:
جس انجمن میں ذکر شہ انبیا نہیں
اس انجمن میں ہم توہیں لیکن خدا نہیں 
(ڈاکٹر الف د نسیم)
آپ نے عشق سا وحشی بھی مسلمان کیا
آپ کے ذکر پہ آداب میں آجاتا ہے
(گوہر ہوشیارپوری)
 اک شخص نے کیاخوب مٹاڈالا ہے دیکھو
اک بُعد کہ جوتھا خلقِ خدا اور خدا میں
(قاضی حبیب الرحمان)
 نسل انسان کے محسن ،مرے آقا ،مولا
جن کا کوئی نہیں ان کے بہی خواہا! شاہا!
(راناغلام محی الدین)
وہ جانتے ہیں مرا مدعا ،کہوں کیسے!
زباں پہ آگئی لکنت سوال کرتے ہوئے
(عون الحسن غازی)
 شروع میں عرض کیا تھا کہ دشمنان ِ دین نے آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد نرینہ کی وفات پر آپ کو لاوارث ہونے کا طعنہ دیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ونسب کو ایسا ارفع اور بلند کیا کہ آج دنیا کی تقریباََ ہرزبان میں آپ کی نعت لکھنے کی مضبوط روایت موجود ہے ۔ڈاکٹر نوید عاجز اس لیے تعریف کے لائق ہیں کہ انھوں نے بساط بھر اس میں اپنی عقیدتوں کا حصہ ڈالا ہے۔اس کی تکریم کرنا ہمارے ایمان کا جزو ہے۔  
 

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن