عوام کے گرد مہنگائی کا شکنجہ کس دینا ، چاروں طرف سیاسی غیر یقینی صورتحال کی دھند پھیلا دینا اور ایسے میں پوری قوم کو اچھے گیت اور اچھے شعر سے محروم کرکے توقع رکھنا کہ ہر آدمی حکمرانوں کو عقیدت اور محبت کی نظر سے دیکھے گا، اس سے بڑا مذاق ہو ہی نہیں سکتا۔
سوچیے آج پاکستانی موسیقی 70ء اور 80ءکی دہائی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔ سٹیج ڈرامہ کس پاتال میں جا پہنچا ہے اور شعر و شاعری کا کیا حال کیا جا رہا ہے۔ کیا حکومتی سطح پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے کہ آخر ہم اس حال تک کیسے پہنچے اور اب اس سے نکلا کیسے جا سکتا ہے۔ میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ایک طویل عرصے سے ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ ان باتوں پر غور کریں۔ جہاں تک سسٹم کا تعلق ہے اگر تو اسے چلانے والے اہلیت کے حامل ہوں تو سسٹم چلتا ہے ورنہ بظاہر چلتا نظر آتا ہے مگر اندر ہی اندر کھوکھلا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب معاشرے میں سو طرح کی اونچ نیچ کے باوجود سرکاری اداروں مثلا ریڈیو پاکستان ، پی ٹی وی ، الحمراءاور آرٹ کونسلوں اور ادبی اداروں میں ایک معیار مقرر تھا۔ حقیقی فنکاروں اور اہل ِ علم کی عزت کی جاتی تھی اور ہلکے فنکاروں کو محنت کرنے کا کہا جاتا تھا اور اب یہ حالات ہیں کہ صرف ادارے کیا، پوری پوری وزارتیں ہی ہلکے فنکاروں کے قبضے میں ہیں جو حقیقی بڑے فنکاروں اور تخلیق کاروں کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ پہلے اداروں میں سوچنے سمجھنے والے لوگ موجود ہوا کرتے تھے جنہیں ادراک ہوتا تھا کہ کس طرح کے پروگرامز سے معاشرے پر کیسے اثرات مرتب ہونگے۔ آج ادبی ادارے ناکام اور آسائشات پرست مدرسین کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ مدرسین کو منتظمین بننے کا شوق مارے جا رہا ہے اور جو ایڈمنسٹریشن پڑھ کے آتے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ الحمراءجیسے اداروں میں جینز اور سکرٹس پر شاعری کرنے والے اخلاق باختہ شعراءکے سولو پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔ جس سے بھی وجہ پوچھو وہ کہتا ہے اوپر سے کہا گیا ہے۔ یقیناً یہ اوپر کوئی بہت اوپر موجود مقام ہے کہ جہاں تک صرف انہی کی رسائی ہے جنہوں نے نیچے تک احکامات بھجوانے ہوتے ہیں۔ پی ٹی وی کا یہ حال ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھا شاعروں کا ایک مخصوص گروہ اسے ذاتی ملکیت سمجھتا ہے اور پی ٹی وی اسلام آباد کے مجبور محض تنخواہ دار افسروں سمیت لاہور سنٹر میں بیٹھے بےبس اور مجبور افسران تک کو اپنے آہنی شکنجے سے باہر ہی نہیں آنے دیتا۔ حتیٰ کہ نعت جیسے پاکیزہ اور مقدس پروگرام بھی میرٹ پر نہیں ہونے دیے جاتے۔ لاہور سینٹر کے جی ایم میرے دوست قیصر شریف اپنی مخصوص دلچسپیوں تک محدود رہنے کے علاوہ صرف حکم بجا لاتے ہیں۔ پی ٹی وی بیچارے کے پاس تو پہلے ہی ویرانی اور بربادی کے سوا کچھ کم ہی بچا تھا لیکن اب تو لگتاہے کہ سفارش اور اپروچ کی لت رہا سہا ادارہ بھی برباد کرکے چھوڑے گی۔
ابھی تازہ تازہ گزرے پچھلے دور میں جسے تاریخ میں محسن سپیڈ کے دور سے یاد رکھا جائیگا۔ شروع میں اچھے ثقافتی پروگرامز کروائے گئے اور پورا لاہور ایک دفعہ تو ترتازگی سے مہک اٹھا تھا لیکن جیسے جیسے اس وقت کے وزیر اطلاعات و ثقافت کو اقتدار کا لطف آنا شروع ہوا ان کی توجہ اداروں سے ہٹ کر افراد پر مرکوز ہوتی گئی اور بالآخر فنکاروں کو افطاری کا بجٹ بھی نہ دے پانے والی حکومت نے آناً فاناً اربوں کھربوں کے پل بنا ڈالے ، وہ بھی پہلے سے ایک ترقی یافتہ اور پوش علاقے میں اور سابق وزیر محترم پریس کانفرنسوں میں محض پولیس کا دفاع کرنے کے لیے ہی رہ گئے۔
بطور معاشرہ ہم اقدار کے جس بحران کا شکار ہوچکے ہیں یہ کوئی یکدم یا اچانک پیش آنے والی صورتحال نہیں۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایکدم نہیں ہوتا۔ کے مصداق سیاسی اور معاشی شکست و ریخت نے آہستہ آہستہ سماجی بنیادیں بھی کھوکھلی کر ڈالی ہیں۔ پیسے ، اختیار اور اقتدار کی جنگ نے اکثریت کی توجہ کسی سنجیدہ کام کی طرف ہونے ہی نہیں دی۔ لمحہءموجود میں سماجی اقدار کو سب سے زیادہ نقصان مصنوعی ثقافتی سرگرمیاں پہنچا رہی ہیں جن کے پیچھے سازش ہی یہ ہے کہ عوام الناس سے حقیقی سماجی شعور اور یگانگت چھین لی جائے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ سیاسی و غیر سیاسی حکومتیں اتنی آسانی سے مل جانے والا کریڈٹ بھی لینے کی اہلیت نہیں رکھتیں کہ کم از کم ملک یا صوبے کی ثقافت کو تو سیاست کا شکار ہونے سے بچا لیں۔
گزشتہ حکومت کے ایک سال میں جس سابق وزیر موصوف کی وجہ سے الحمراء پنجاب آرٹس کونسل اور دیگر ادبی ثقافتی ادارے اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہوئے اور اداروں میں بیٹھے افسران کی ساری توجہ سابق وزیر اور سیکریٹری ثقافت و اطلاعات کے پروٹوکول پر رہی، آج انہیں پھر الحمراء کے بورڈ کا چیئرمین لگانے کی شنید ہے۔ کیا یہ بہتر نا ہوتا کہ موجودہ حکومت کسی ویڑنری شاعر ادیب کو یہ ذمہ دای سونپتی۔ یہ بہت اہم ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف کی کابینہ اور ٹیم ان اداروں پر تھوڑی سی توجہ دے۔
حقیقت میں ملک و قوم کے لیے کچھ کر دکھانے والوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں اور انہیں معیار پر کام کرنے کے کھلے اختیارات دیے جائیں اور سختی سے مانیٹر کیا جائے۔ کم ازکم ملک کے ان اداروں کو تو ایکسپلائٹیشن سے بچا لیا جائے جن کا تعلق براہ راست معاشرے کی تہذیب و تمدن کے ساتھ ہے۔
اس سال جشن بہاراں سے لاہور کا محروم رہ جانا آکسیجن کے رکنے جیسا المیہ ہے۔ لاہور اسی لیے زندہ دلان کا شہر کہلاتا ہے کہ یہاں کے باسی مشکل ترین حالات میں بھی دل چھوٹا نہیں کرتے۔ اسی طرح مرکز میں بھی وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور وفاقی وزیر اطلاعات کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سٹاف سے پوچھیں کہ وہ کونسے گروہ ہیں جو اداروں پر اثر انداز ہوتے آئے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کی حکومتوں کی طرف سے اداروں کے سدھار کی چھوٹی چھوٹی کوشش عوام کے حکومت پر اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ملک کا وزیر اعظم یا صوبوں کے وزرائےاعلیٰ نہیں چاہیں گے کہ اداروں کو کھوکھلے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مفت کی ناکامی اور بدنامی مول لے لی جائے۔ جو وزیراعلیٰ سارا سارا دن مارکیٹوں ، سکولوں اور ہسپتالوں میں جا جا کے عوام سے پوچھ سکتی ہیں کہ حکومت کی مدد آپ تک پہنچی یا نہیں وہ ایک دن الحمراءبھی جاسکتی ہیں جہاں کسی ثقافتی ویڑن اور میرٹ کی نیت کے بغیر بٹھائے گئے افسران لمبی تنخواہیں بٹورنے کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ یاپھر سماجی بگاڑ کا باعث بننے والے پروگرام کروا کر کہتے ہیں کہ اوپر سے آرڈر آئے تھے۔ موجودہ وزیر ثقافت و اطلاعات اور محترمہ وزیراعلیٰ کی معمولی توجہ اور سنجیدگی سے صرف ثقافتی اداروں سے اتنا کام لیا جاسکتا ہے جو ایک طرف معاشرتی تعمیر کی تاریخ رقم کرسکتا ہے اور دوسرا عوام کے دل بھی جیتے جاسکتے ہیں۔ اس دور آشوب میں کم از کم لوگوں کو اچھا گیت اور اچھا شعر ہی لوٹا دیجئے۔
٭....٭....٭
حکومتی سطح پر ثقافتی سنجیدگی کی ضرورت
Mar 22, 2024