ام المومنین سیّدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ / ناموس رسالت

معزز قارئین! 10 رمضان المبارک 1445ھ (21 مارچ 2024ئ)کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے ام المومنین سیّدہ خدیجتہ الکبریٰؓ کا یومِ وِصال منا یا۔ آپ کی ولادت باسعادت عام الفیل سے15 سال پہلے 555ءمیں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب اپنے والد محترم کی طرف سے چار واسطوں سے اور والدہ محترمہ کی طرف چھٹی یا ساتویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کے نسب عالیہ سے جا ملتا ہے۔
”صادق/ امین!“۔
اعلان نبوت سے پہلے ہی اہلِ مکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ آپ کے حسن معاملت، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاق کا چرچا عام تھا، پھر قبیلہ قریش کی معزز، مالدار اور عالی نسب خاتون خدیجہؓ جن کا لقب ”طاہرہؓ “ تھا، نے آپ کو اپنے کاروبار میں شریک کِیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرونی ملکوں میں بھیجا۔ آپ کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے سیّدہ خدیجتہ الکبریٰؓ اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوا دِیا۔ 
”آپ سے نکاح!“ 
نکاح کی تاریخ معین پر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت ابو طالبؓ بن حضرت عبدالمطلبؓ اور تمام رﺅسائے خاندان ، جن میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے گھر پہنچے، حضرت خدیجہؓ نے بھی اپنے خاندان کے بزرگوں کو جمع کِیا، حضرت ابوطالبؓ نے خطبہ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسدؓ کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور خدیجہ طاہرہؓ حرم نبوت ہو کر ام المومنینؓ کے شرف سے ممتاز ہوئیں۔ اس وقت سرورِ کائنات کی عمر پچیس سال اور ام المومنینؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ 
”اعلانِ نبوت !“ 
نکاح کے پندرہ برس بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض نبوت ادا کرنا چاہے تو سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ کو یہ پیغام سنایا۔ اِس لحاظ سے آپؓ پہلی مومنہ تھیں۔ احادیث کے مطابق ”آپ کھانے پینے کا سامان لے کر غارِ حرا تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت کرتے اور مراقبہ میں مصروف ہو جاتے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رسالت میں سلام لاتے اور خوشخبری دیتے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم جلالِ الٰہی سے لبریز گھر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے یہ واقعہ حضرت خدیجہ طاہرہؓ سے بیان کِیا۔ آپ نے کہا کہ ”آپ متردد نہ ہوں، خدا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کا ساتھ نہیں چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں!“۔ 
”ورقہ بن نوفل ! “ 
پھر حضرت خدیجہ طاہرہؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے، عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ طاہرہؓ نے اپنے چچا زاد کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ”یہ وہ ہی ناموس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترے تھے، کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور مَیں زندہ رہتا جب آپ کی قوم (قریش) آپ کو شہر (مکہ) بدر کردے گی!“۔ اِس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم نے پوچھا کہ ”کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے!“۔ آپ نے کہا کہ جی ہاں !“۔ معزز قارئین! پھر چند دِن بعد ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا۔ 
”کعبہ میں نماز! “ 
حضرت محمد بن اسماعیل بخاری المعروف امام بخاریؓ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ”ایک صاحب عفیف کندی سامان خریدنے کیلئے مکہ آئے اور حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کے گھر فروکش ہوئے، صبح کے وقت ایک دِن آپ نے کعبہ کی طرف نظر کی تو ، دیکھا کہ ایک نوجوان وہاں آیا اور آسمان کی طرف قبلہ رخ کھڑا ہوگیا، پھر ایک نوعمر جوان اس کے داہنی طرف کھڑا ہوگیا، پھر ایک خاتون دونوں کے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ نماز پڑھ کر یہ تینوں چلے گئے تو ، جناب ِ عفیف نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ ”کوئی عظیم الشان واقعہ پیش آنے والا ہے!“۔ حضرت عباسؓ نے جواب دِیا اور کہا کہ ”ہاں!۔ یہ نوجوان میرا بھتیجا صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم محمد بن عبداللہ ہے اور دوسرا بھتیجا علی ابنِ ابوطالبؓ اور یہ خاتون میرے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کی اہلیہ!“۔
”ملیکة العرب / ناموس !“ 
معزز قارئین ! عربی زبان کے لفظ ”ناموس“ کے کئی معنی ہیں۔ ”حضرت جبرائیل علیہ السلام، فرشتے، احکام الٰہی، قاعدہ، دستور، آئین ، آوا، صدا، ندا، صاحب ِ راز، عفت، شرم، عصمت، حیا، نیک نامی، عزّت، تدبیر، شریعت خلقت سے عزّت کی امید رکھنا“۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ” ناموسِ اکبر“ بھی کہا جاتا ہے۔ احادیث کے مطابق ” ام المومنین سیّدہ خدیجتہ الکبریٰؓ کے پاس اِتنا مال و دولت تھا کہ انہیں ”ملیکة العرب“ (عرب کی تاجدار رانی) کہا جاتا تھا۔ تواریخ کے مطابق ”ملیکة العرب کے پاس ”احد پہاڑ“ کے برابر سونا اور چاندی تھی اور جسے آپ نے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم سے عقیدت اور محبت کی خاطر مکہ کے لاتعداد غلاموں اور کنیزو ں کو (ان کے مالکان سے) آزاد کرا کے ان کی شادیوں کا بندوبست کِیا۔ 
”شعب ِ ابی طالبؓ !“ 
مکہ کے قریب ایک پہاڑ کی گھاٹی کا نام ”شعبِ ابی طالب تھا، جہاں 7 نبوی بمطابق ستمبر 615ءمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم اور خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینا پڑی۔ یہ ایک طرح کا قریش مکہ کی طرف سے ایک معاشرتی مقاطعہ (Boycott Social) تھا جو تین سال تک جاری رہا۔ بھوک کے دَوران بعض لوگوں کو درختوں کی جڑیں چبانا پڑتی تھیں اور پیٹ پر کھجور کے تنے یا چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ وہاں ام المومنین سیّدہ خدیجتہ الکبریؓ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم کے ساتھ تین سال تک محصور رہیں۔ معزز قارئین! مَیں ایک عام سا مسلمان ہوں لیکن آج مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ ”ناموسِ رسالت کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بڑی قربانی تو، شعبِ ابی طالبؓ کے محصورین نے دی تھی؟ 

ای پیپر دی نیشن