سائفر کیس اور دہشت گردی پر دوٹوک امریکی موقف

امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈلو نے امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے روبرو سائفر کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سائفر کیس میں امریکی سازش سے متعلق عمران خان کا الزام سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ انکے بقول عمران خان کے اس جھوٹے الزام کی بنیاد پر انہیں اور ان کے خاندان کو دو برس سے قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ خود پاکستانی سفیر اسدمجید بھی سائفر کا الزام جھوٹ پر مبنی قرار دے چکے ہیں۔ ڈونلڈلو کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت معیشت اور دہشت گردی دونوں محاذوں پر لڑ رہا ہے۔ پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے اور افغانستان میں فوجی انخلاءکے بعد سے خطہ غیرمستحکم ہے۔ پاکستان کی اندرونی صورتحال کے باعث خطے کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ پاکستان امریکہ کا اہم پارٹنر ہے۔ ہم پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے عزم میں شریک ہیں۔ انکے بقول یوایس پاکستان گرین الائنس فریم ورک قائم ہے۔ ہم دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے تعاون کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں معاشی استحکام کو فروغ دینے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم پاکستان کی برآمدات کیلئے بھی سرفہرست ہیں اور اپنی شراکت کے 76 برسوں میں سب سے اہم سرمایہ کار رہے ہیں۔ پاکستان کو معاشی اصلاحات اور نجی شعبے کی زیرقیادت سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے عوام ایک ایسے ملک کے مستحق ہیں جو پرامن‘ جمہوری اور خوشحال ہو۔ ہم اس وڑن کی حمایت کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ 
دہشت گردی کے حوالے سے ڈونلڈلو کا کہنا تھا کہ افغانستان 40 برس سے تنازعات میں گھرا ہوا ہے اور پاکستان افغانستان سے جڑے تنازعات میں پھنسا ہوا ہے؟ ہمارا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کا سامنا کرنے والے پاکستانی عوام کو سپورٹ کریں۔ پاکستان کے عوام نے جس دہشت گردی کا سامنا کیا ہے‘ کسی اور نے نہیں کیا۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں کچھ برسوں سے دہشت گردی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ افغان سرزمین سے پاکستانی علاقے پر حملے جاری ہیں۔ افغان علاقے سے بڑا حملہ ہفتے کو ہوا جس میں سات پاکستانی جوان شہید ہوئے۔ یہ حملہ ٹی ٹی پی نے کیا۔ مسٹرلو نے عبوری کابل انتظامیہ کو باور کرایا کہ افغان طالبان اس امر کو یقینی بنائیں کہ انکی سرزمین دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ افغان جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔ پاکستان میں معاشی استحکام امریکہ کے مفاد میں ہے۔ پاکستان اپنی معاشی پالیسیاں ٹھیک کرے تو امریکہ سے بڑی سرمایہ کاری آئیگی۔ 
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں پاکستان کے انتخابات کے بعد کی صورتحال پر ڈسکشن کرنے کا مقصد پاکستان اور امریکہ کے مستقبل کے تعلقات پر بات کرنا تھا۔ اس حوالے سے کمیٹی کے روبرو امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈلو نے مبینہ انتخابی دھاندلیوں‘ پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے دوران دہشت گردی اور تشدد کے واقعات‘ انٹرنیٹ سروس کی معطلی‘ صحافیوں سے بدسلوکی اور انتخابی عمل میں مداخلت سمیت جن معاملات کی نشاندہی کی اور انکی جامع تحقیقات پر زور دیا، وہ پاکستان کے اندر بھی اسی تناظر میں موضوع بحث ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے الزامات مجاز عدالتی فورموں پر بھی جا رہے ہیں اور سماجی رابطے کے اہم ذریعے ایکس (ٹویٹر) کی معطلی پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے تشویش کے اظہار پر بھی پاکستان کے متعلقہ اداروں‘ حکام ‘ سیاست دانوں اور عوامی حلقوں کی نظر ہے۔ انتخابات سے متعلق ان سارے معاملات سے عہد برا ہونا یقیناً پاکستان کا اپنے گھر کا معاملہ ہے جس پر متعلقہ فریقین کے مابین جو بھی حتمی لائحہ عمل طے ہوگا وہ منظرعام پر آجائیگا جبکہ امریکی سائفر سے متعلق بانی پی ٹی آئی کے الزام پر امریکی خارجہ امور کمیٹی میں اعلیٰ سطح پر اس الزام کو سراسر جھوٹ پر مبنی قرار دیئے جانے کے بعد اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے مزید سیاست کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اسکے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت اپنے اس بیانیہ پر مصر رہتی ہے تو اسکے پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاست پر بھی یقیناً منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اس لئے ڈونلڈلو کے بیان کی روشنی میں اب پی ٹی آئی کو بلیم گیم کی سیاست سے خود کو باہر نکال کر تعمیری سیاست کی جانب آنا چاہیے تاکہ سیاسی میدان میں اسکی گنجائش موجود رہے۔ 
اس وقت پاکستان کو درپیش سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی اور معاشی عدم استحکام کا ہے جس پر امریکی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی میں مفصل بحث ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال ہونے پر اس کمیٹی کے ذریعے امریکی تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور طالبان حکومت کو ایک طرح سے شٹ اپ کال بھی دی گئی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ چنانچہ یہی وہ اصل نکتہ ہے جس پر قومی سیاسی‘ عسکری اور ادارہ جاتی قیادتوں کے مابین قومی اتفاق رائے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا معاشی استحکام بھی یقینی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ اگر ملک میں دہشت گردی کا ناسور اسی طرح پھلتا پھولتا رہے گا،جس کے ڈانڈے افغان سرزمین سے جا ملتے ہیں، تو بیرون ملک سے تو کجا‘ اندرون ملک سے بھی کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کا رسک لینے کو تیار نہیں ہوگا اس لئے دہشت گردی کا ہر صورت تدارک ہماری اولین ترجیح ہے جس کیلئے تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو باہم یکسو ہو کر دسمبر 2014ءجیسا ٹھوس اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے جب سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد تمام سول سیاسی اور عسکری قیادتوں نے ایک صفحے پر آکر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا۔ اب پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے شدومد کے ساتھ اور اعلانیہ استعمال ہونے پر صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ہے جس پر امریکہ کو بھی بجاطور پر تشویش ہوئی ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کے ناسور نے افغانستان میں شروع کی گئی امریکی جنگ کے باعث ہی جنم لیا تھا۔ 
اس تناظر میں امریکہ سمیت پوری اقوام عالم نے اس خطہ کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے عملی اقدامات اٹھانے ہیں بصورت دیگر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی ہمہ وقت داﺅ پر لگی رہے گی۔ امریکہ نے ہفتے کے روز پاک فوج کے اپریشن میں مصروف دستے پر دہشت گرد حملے پر تشویش کا اظہار کرکے درحقیقت دہشت گردوں کیخلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کی آج فی الحقیقت ضرورت بھی ہے کیونکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں بدستور جاری ہیں اور گزشتہ روز دہشت گردوں نے گوادر پورٹ کمپلیکس پر بھی حملہ کیا جو پاک فوج نے اپنے دو جوانوں کی شہادت کے ساتھ ناکام بنایا اور آٹھ دہشت گرد جہنم واصل کئے۔ ہماری سکیورٹی فورسز تو یقیناً دہشت گردی کے مکمل تدارک کیلئے پرعزم ہیں اور جانی قربانیاں بھی پیش کر رہی ہیں۔ اب منافرت کی سیاست اور بلیم گیم میں الجھی ہماری سیاسی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لینے ہیں تاکہ یہ ارض وطن امن کا گہوارہ بن سکے۔

ای پیپر دی نیشن