ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
سندھ کو’’باب الاسلام‘‘ یعنی اسلام کادروازہ کہاجاتاہے۔فتح سندھ کاواقعہ دس رمضان المبارک کوپیش آیاہے۔سندھ کے فتح کی سعادت اسلام کے عظیم جرنیل محمدبن قاسم کوحاصل ہوئی ہے۔تیرہ سو سال پہلے کا سندھ مغرب میں مکران ، جنوب میں بحر عرب اور گجرات ، مشرق میں موجودہ مالوہ کے وسط اور راجپوتانہ شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک وسیع وعریض علاقے تک پھیلاہوا تھا۔دوواقعات ایسے ہیں جوسندھ پر حملے کاسبب بنے ایک یہ کہ راجہ داہرمتعصب ہندو اور برہمن زادہ تھا۔ اس لیے اس نے بدھ مت کے پیروکاروں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ۔ان مظلوموں میں جاٹ اور لوبان قومیں بھی شامل تھیں۔ انہیں قیمتی کپڑے ، ریشم مخمل اور شال استعمال نہ کرنے کا حکم تھا۔یہ جاٹ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے اور ننگے سر اور ننگے پیر رہتے۔ سندھ کے یہ مظلوم طبقے مدد کے طالب تھے۔دوسراسبب یہ بناکہ تجارت کی غرض سے کچھ مسلمان تاجر لنکا میں آباد ہو گئے تھے۔ لنکا کے راجہ کے حجاج کے ساتھ بہت خوشگوار تعلقات تھے۔ اس نے ان تعلقات کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے کچھ قیمتی تحائف اور وفات شدہ تاجروں کے بیوی بچے ایک جہاز میں سوار کرکے بصرہ روانہ کر دیے۔ لیکن جب جہاز دیبل کے قریب پہنچا میدھ قوم کے کچھ ڈاکوؤں نے اسے لوٹ لیا اور عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ انہی عورتوں میں سے ایک عورت نے حجاج کے نام دہائی دی۔ اس واقعہ کی اطلاع جب حجاج کو ملی تو اس نے فوری کارروائی کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے راجہ داہر کو سامان واپس کرنے ، یتیموں اور عورتوں کو رہا کرنے اور ڈاکوؤں کو اسلامی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن راجہ داہرنے بڑا روکھا جواب دیااور کہا ڈاکوؤں پر میرا کوئی اختیار نہیں اور نہ ہم ان کو تلاش کر سکتے ہیں۔ راجہ کی ہٹ دھرمی نے عربوں کو سندھ پر حملہ آور ہونے پر مجبور کر دیا اوراس مقصدکی خاطرمحمدبن قاسم کی نگرانی میں 12 ہزار فوج تیار کی گئی جسے بھاری سامان ایک بحری بیڑے کے ذریعے روانہ کیا گیا۔
محمد بن قاسم مکران کے راستے سندھ کی طرف روانہ ہوئے پنجگوار اور ارمن بیلہ کو فتح کرتے ہوئے دیبل کارخ کیادیبل کی فتح کے بعد اسلام کے عظیم فاتح نے بدھ مت کے پجاریوں اور مسلمان قیدیوں کو ظالم ہندوؤں سے نجات دلائی ۔
دیبل کی فتح کے بعداسلامی لشکرنے نیرون کارخ کیانیرون کی آبادی اور حاکم بدھ مت کے پیروکار تھے ،مسلمانوں سے خائف بھی تھے اور انہیں اپنا نجات دہندہ بھی سمجھتے تھے۔ اس لیے محمد بن قاسم کے نیرون پہنچنے سے پہلے ہی نیرون کے حاکم نے حجاج سے امان نامہ منگوا لیا تھا۔ چنانچہ اسلامی لشکر کے پہنچنے پر اس نے امان نامہ پیش کیا۔ سالار لشکر کی خدمت میں تحائف پیش کیے ،سندھ کی تسخیر کے لیے قابل قدر مشور ے دیے اوراسلامی لشکر کے لیے اس رسد کا بھی انتظام کیا۔ محمد بن قاسم نے بھی نیرون کے حاکم کی قدر افزائی کی۔ شہر میں ایک مسجد تعمیر کی گئی اور مسلمانوں کی کالونی بسائی گئی۔نیرون کے بعدکچھ اورعلاقے فتح ہوئے پھر حجاج کی طرف سے حکم ملا کہ اب راجہ داہر کے پایہ تخت پر حملہ کیا جائے۔ اس لیے محمد بن قاسم نیروان واپس پہنچے اور داہر کے پایہ تخت پہنچنے کی تیاریاں کرنے لگے۔
اسلامی لشکر پیش قدمی کرتا ہوانرانی نامی گاؤں پر قابض ہو گیا۔ راجہ داہر اس کے بالکل سامنے واقع قصبہ کاجی جاٹ میں مقیم تھا درمیان میں صرف ایک جھیل تھی۔ راجہ راسل نے ایک کشتی کے ذریعے تین تین آدمی جھیل کے پار بھیجنے شروع کر دئیے یہاں تک کہ تمام لشکر پار جا اترا راجہ نے اپنے اہل و عیال کو دراوڑ کے قلعے میں بند کر دیا اور خود لڑائی کے لئے تیاری ہوگیا۔
راجہ داہر ایک سو ہاتھیوں ، دس ہزار زرہ پوش سوار اور تیس ہزار پیدل فوج کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے مقابلہ پر آیا۔ چار دن تک مقابلہ جاری رہا۔ منہ زور ہاتھیوں کے سامنے مسلمانوں کا زور نہ چلتا تھا۔ آخر پانچویں روز مسلمانوں نے پچکاریوں کے ذریعہ آتش گیر مادہ ہاتھیوں پر پھینکنا شروع کیا جس سے وہ بھاگ کھڑے ہوئے راجہ داہر کا ہاتھی بھی میدان سے بھاگالیکن راجہ داہر ہاتھی سے اتر کر پیادہ لڑتا رہا یہاں تک کہ ایک عرب نے اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے مرتے ہی فوج قلعہ دراوڑ کی طرف بھاگ گئی۔راجہ داہر کے لڑکے جے سنگھ نے شکست خورہ فوج کو راوڑ میں جمع کیا اور مقابلہ کی ٹھانی لیکن اس کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ د رواڑ کی بجائے برہمن آباد زیادہ محفوظ مقام ہے وہاں جاکر مقابلہ کرنا چاہیے جے سنگھ تو برہمن آباد چلا گیالیکن راجہ داہر کی بیوی رانی بھائی دوسری عورتوں سمیت ستی ہوگئی اورد راوڑ پر مسلمانوں کے قدم مضبوط ہوگئے۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ راوڑ سے برہمن آباد کی طرف بڑھے۔ راستے میںبہرور اور وہلیلہ دو مضبوط قلعے پڑتے تھے۔ اسلامی لشکرپہلے بہرور پر حملہ آور ہوادو ماہ کے سخت محاصرے اور شب و روز کی جنگ کے بعد بہرور پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد وہلیلہ پر حملہ کیایہاں کے لوگ بد دل ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ با آسانی فتح ہو گیا۔اس اثنامیں راجہ داہر کا دور اندیش وزیر سی ساکر بھانپ گیاتھا کہ اب مسلمانوں کے حملے کو روکنا ناممکن ہے۔ اس نے محمد بن قاسم کے پاس جان بخشی کی درخواست کی او ر تعاون کا یقین دلایا۔ اور وہ عورتیں بھی پیش کیں جن کو قزاقوں نے اغواکیا تھا اور جن کی وجہ سے اسلامی لشکر سندھ پر حملہ ہوا تھا۔ سی ساکر نے خیر خواہی اور وفاداری سے محمد بن قاسم کا اعتماد حاصل کر لیا۔ محمد بن بن قاسم نے بھی اسے اپنا مشیر خصوصی بنا لیا اور اس کے مشورے سے وہلیلہ کی حکومت ایک ہندو نوبہ کے حوالے کردی۔
ملتان سندھ کا اہم سیاسی ، ثقافتی اور مذہبی مرکز تھا۔ یہاں گور سنگھ کی حکومت تھی۔ اس نے دو روز تک قلعہ سے باہر نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا اوراہم مسلمان جرنیل شہید ہو گئے۔ اس کے بعد وہ قلعہ بند ہو گیا۔ دیر تک محاصرہ جاری رکھنے پر لشکر میں قحط پڑ گیا۔بالآخر مسلمانوں کو اس نالے کا علم ہو گیا جو اہل شہر کو پانی مہیا کرتا تھا۔ اس کا رخ بدل دیا گیا تو قلہ بند فوج شکست کھا گئی ،شہر کی فصیل ٹوٹ گئی اور مسلمان قلعہ میں داخل ہوگئے۔ ملتان سے محمد بن قاسم کو ایک مندر کا محفوظ خزانہ ہاتھ لگاجسے اس نے حجاج کے خلیفہ ولید سے وعدے کے مطابق شاہی خزانہ میں داخل کروا دیا۔ملتان محمد بن قاسم کی آخری قابل ذکر فتح تھی۔ اس دوران حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا۔ پھر اموی خلیفہ ولیدبن عبدالملک کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہوگیا۔ولید کے بھائی سلیمان بن عبدلملک نے اس کا بدلہ حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کو حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کی جرم میں واپس لا کر عذاب کا نشانہ بنایا گیا اور جیل میں ہی اس کا انتقال ہوا۔