فدیہ، فطرانہ کے حقدار مساکین

امیر افضل اعوان
رمضان المبارک اپنے دامن میں بے پناہ رحمتیں اور برکتیں سمیٹے امت مسلمہ کے لئے خالق کائنات کے انعام کی شکل میں آج ہمارے درمیان میں موجود ہے، قرآن وحدیث میں ماہ رمضان کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے جس کا مطالعہ کیا جائے توعلم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی اہمیت و برکات کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں‘قرآن کریم میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ اے ایمان والو، تم پر روزے رکھنا فرض کر دیا گیا ہے جس طرح یہ روزے تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے ، یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ تم پرہیز گار بن سکو، یہ تو چند گنتی کے دن ہیں ، ہاں اس دوران تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اس گنتی کو پورا کرے اور تم میں سے جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں تو ان کو ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اس کے لئے اور بھی بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لئے اور بھی بہتر ہے ، اگر تمہیں اس کا علم ہو جائے ‘‘ سورۃ البقرہ ، آیت183-184،واضح رہے کہ روزے تمام انبیاء کرام ؐ کی شریعت میں جاری رہے اس حوالہ سے صرف تعین ایام بارے مختلف روایات ہیں، روزہ کو دین اسلام کا ایک اہم رکن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سہل ہو جائے، روزہ میں صرف کھانے پینے کی اشیاء￿ کو ترک کرنے کی مشق نہیں گئی بلکہ لڑائی جھگڑے اور بری باتوں سے بچنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔
رمضان المبارک کے حوالہ سے نبی کریم ؐ نے ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا کہ ’’ بلا شبہ جنت ماہ رمضان کیلئے شروع سال سے آخر تک سجائی جاتی ہے ، جب رمضان المبارک کامہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت ( اللہ تعالیٰ سے ) عرض کرتی ہے کہ اے اللہ! اس مبارک مہینہ میں اپنے بندوں میں سے کچھ بندے میرے اندر قیام کرنے والے مقرر فرما دیجئے ( جو عبادت کر کے میرے اندر داخل ہو سکیں ) اسی طرح حوریں بھی عرض کرتی ہیں کہ ، اے خدائے ذوالجلال ! اس با برکت مہینے میں اپنے بندوں میں سے ہمارے واسطے کچھ خاوند مقرر فرما دیجئے ، چنانچہ جس شخص نے رمضان شریف کے مہینے میں اپنے نفس کی حفاظت کی اور کوئی نشہ آور چیز نہ پی اور کسی مومن پر کوئی بہتان لگایا اور نہ ہی کوئی گناہ ( کبیرہ ) کیا تو اللہ جل شانہ ( رمضان شریف ) کی ہر رات میں اس بندہ کی سو حوروں سے شادی کر دیتے ہیں ، اور اس کیلئے جنت میں ایک محل سونے چاندی ، یاقوت اور زمرد کا تیار کر دیتے ہیں ( اس محل کی لمبائی ، چوڑائی کا یہ عالم ہے کہ ) اگر ساری دنیا اکھٹی اس محل میں رکھ دی جائے ( ایسی معلوم ہو جیسے دنیا میں کوئی بکریوں کا باڑہ ہو ) یعنی دنیا جنت کے اس محل میں رکھ دی جائے تو بکریوں کے باڑے کی طرح چھوٹی سی معلوم ہو گی ) اور جس شخص نے اس ماہ مبارک میںگناہ کبیرہ میں اپنے آپ کو ڈالے رکھا اللہ تعالی اس کے سال بھر کے نیک اعمال ختم کر دیں گے۔
’’حضرت  ابوہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل روزوں کے علاوہ اسی کے لئے ہے اور روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی روزوں کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے تو جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو وہ اس دن نہ بے ہودہ گفتگو کرے اور نہ کوئی فحش کام کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے جھگڑے تو اسے چاہئے کہ وہ آگے سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں میں روزہ سے ہوں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ؐکی جان ہے کہ روزہ رکھنے والے کے منہ کی بْو اللہ کے ہاں قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہوگی اور روزہ رکھنے والے کے لئے دو خوشیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ خوش ہوگا جب روزہ افطار کرتا ہے تو وہ اپنی اس افطاری سے خوش ہوتا ہے جب وہ اپنے رَبّ سے ملے گا تو وہ اپنے روزہ سے خوش ہوگا‘‘(صحیح مسلم، جلد دوم) ،رمضان المباک کو ’’رمضان شہر اللہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس حدیث قدسی میں اللہ پاک خود ارشاد فرما ہے کہ کہ انسان کا ہر عمل اس کے لئے ہے مگر روزہ خاص طور پر میرے لئے ہے اور اس کا میں ہی اجر دوں گا، حق تعالیٰ نے اس ماہ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے ، گویاموسم بہار کی طرح خصوصی تجلیات الٰہیہ اس مبارک مہینہ میں برستی ہیں ، جنہیں حق تعالیٰ نے بصیرت کی آنکھیںدی ہیں وہ ان تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کے فیوض و برکات سے مستعفید ہوتے ہیں ، البتہ جو لوگ دل کی آنکھ سے بھی محروم ہیں وہ بد قسمت ان تجلیات کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
   بلاشبہ جو اپنی زندگی میں رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کی قدر نہیں کرتے اور اللہ تعالی کی رحمت ، نوازشات سے محروم رہتے ہیں وہ درحقیقت بہت بد نصیب ہوتے ہیں اورآخرت کے بدلے دنیا کا سودا کرنے والے اس سوچ سے ہی یکسر محروم لگتے ہیں کہ وہ اس مقدس مہینے کی اہمیت کو فرموش کرکے کس قدر خسارہ میں رہے، دعا ہے کہ ہم سب کو اس ماہ مقدس کا احترام کرنے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہو اور معاشرہ میں مروجہ اس غلط سوچ کا خاتمہ ممکن ہوسکے، ہم اس ماہ مقدس کی اہمیت، برکت اور فضیلت کو نظر انداز کرتے ہوئے محض دنیوی و عارضی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے کس طرح خسارے کا سودا کرتے ہیں ، اسلام ہمیں دوسروں کے کام آنے اور ان کی مشکلات کے خاتمہ کا درس دیتا ہے مگر ہم اس کے برعکس  معاشرے کی سطح پردوسروں کے لئے مسائل بڑھا کر اپنی دنیا و آخرت برباد کررہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیرت طیبہ سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنا قبلہ درست کریں اور ماہ رمضان کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوسرں کے مسائل میں اضافہ کا باعث بننے کی بجائے اپنے قول و فعل کا تضاد دور کریں، یقینا جب تک گراں فروشی ، ذخیرہ اندوزی اور مارکیٹ میں کسی چیز کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ناجائز منافع کمانے کی تیزی سے پروان چڑہتی سوچ ختم نہیں ہوجاتی حالات کی مثبت تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن