محمد عمر قاسمی
ماہ رمضان اہل ایمان کے لیے خوشی و مسرت کا پیغام لئے سایہ فگن ہے۔ہماری التجائیں کرنے،اعمال پر غور و فکر اور اپنے نفس کو قابو رکھ کر دین پر عمل کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امّتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔‘‘چوں کہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔ پہلی امّتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر امت محمدی کے لیے سال میں صرف ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے۔اس کیلئے طلوع سحر سے لے کر غروب افتاب تک انتہائی معتدل اور مناسب وقت رکھا گیا۔اس دورانیے میں اللہ کی حکمت ہے اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کرکے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیّت اور ریاضت کرکے حاصل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان اس مبارک ماہ میں اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے نبی اکرم ؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر سحر و افطار اور عبادت و ریاضت کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے سعادت و نیک بختی کے راستے پر گام زن ہیں۔
رسول کریمؐکے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔ اور جنّت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آگے آؤ، اور اے بدی اور بدکاری کے شائق رک، آگے نہ آؤ، اور اللہ کی طرف سے بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ رمضان کی ہر رات میںایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ؐ نے ایک خطبے میں فرمایا، مفہوم: ’’ اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے ا? تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں (نماز تراویح) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قْرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا: اس ماہ مبارک کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی مغفرت ہے اور آخری آتش جہنّم سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں کمی کر دے گا، اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ پروردگار! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘
ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی، آپ نے سواری روکی اور کھڑے ہوکر سننے لگے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے: ’’ بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں۔‘‘ تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ’’رب کعبہ کی قسم سچ ہے۔‘‘ پھر آپ سواری سے اتر ے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ یہ تو وہ بزرگ، مقدس و مطہر شخصیات تھیں جن سے اللہ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔ مگرکیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہوکر اس کے رموز و اسرار کو پانے کی کوشش کی؟ہمیں اپنا مسلسل محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے ۔