ہر سال جب بھی 20 مئی کا دن آتا ہے تو مَیں کچھ دیر کیلئے تو ضرور سوگ میں ڈوب جاتا ہوں کیونکہ اس روز پاکستان کی شہری ہوا بازی کی تاریخ کا ایک ایسا اندوہناک حادثہ رونما ہوا جس میں وطن عزیز کے انتہائی سینئر اور جانے پہچانے صحافی اور ذرائع ابلاغ سے منسلک بعض سرکاری اور نجی اداروں کے کہنہ مشق افسران فضائی حادثے میں لقمہ¿ اجل بن گئے۔ 48 سال قبل پی آئی اے کی لاہور سے قاہرہ تک کی ایک نئی پرواز کا افتتاح تھا، میدانِ صحافت میں سرگرم یہ اصحاب 20 مئی کو جانے والی اس افتتاحی پرواز کے ذریعے ہنسی خوشی اور گپ شپ میں مصروف قاہرہ کی جانب محوِ سفر تھے لیکن کسے خبر تھی کہ مصری دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر اُترنے سے قبل ہی وہ دیگر سینکڑوں مسافروں کے ہمراہ اللہ کو پیارے ہو جائیں گے۔ اس کالم میں زیرِ تذکرہ صرف روزنامہ ”نوائے وقت“ کے ایک سابق چیف رپورٹر، نامہ نگار خصوصی اور کالم نویس جناب عرفان چغتائی ہوں گے جو میرے بزرگ ہونے کے علاوہ مخلص دوست بھی تھے۔
24 فروری 1962ءکی سرد رات میں مسلم ٹاﺅن لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر محوِ خواب تھا کہ رات ساڑھے بارہ بجے گیٹ پر دستک ہوئی۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھا اور باہر پہنچا تو گیٹ کے باہر کھڑے ایک صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”میں نوائے وقت سے آیا ہوں اور تمہارے والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام خورشید سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ میرے استفسار پر انہوں نے ایمرجنسی کا کہا۔ بہرحال میں عرفان چغتائی صاحب کو باہر کے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر والد صاحب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کو جگانے اندر چلا گیا اور ان سے ملاقاتی کا ذکر کیا۔ وہ کہنے لگے کہ ”اللہ خیر کرے لیکن مجھے کچھ اندازہ ہو گیا ہے“ وہ عرفان چغتائی صاحب سے عرصہ دراز سے متعارف تھے اور ان کے قریب بیٹھ گئے۔ چائے کا کہہ کر نمائندہ نوائے وقت سے آمد کا پوچھا۔ چغتائی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایڈیٹر انچیف جناب حمید نظامی صاحب شدید علیل ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اس وقت حالت نازک ہے لہٰذا مجھے ہدایت کی گئی کہ احتیاطاً حمید نظامی صاحب کے چند قریبی دوست احباب سے ان کے بارے میں تاثرات قلمبند کر لیجئے۔ انہوں نےوالد صاحب کا مختصر انٹرویو کیا اور اسلامیہ کالج کے ایام، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام، سیاسی سرگرمیوں، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ سے ہدایات لینے سے متعلق باتوں کے علاوہ میرے والد نے انہیں کالج میں اس دور کے تعلیمی ماحول، حمید نظامی صاحب کی سیاسی، علمی، سماجی اور صحافتی خدمات کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ چغتائی صاحب اپنا کام مکمل کر کے ہمارے گھر سے رخصت ہو گئے اور اگلے روز شہر بھر میں حمید نظامی صاحب کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جبکہ والد صاحب مجھے بھی جنازے میں شرکت کیلئے ساتھ لے گئے۔
سوا تین سال بعد یعنی 20 مئی 1965ءکو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں جہاں میں بھی ایم اے آخری سال میں تھا الوداعی تقریب منعقد ہو رہی تھی کہ اچانک یہ المناک اطلاع آئی کہ چند گھنٹے قبل ہی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کی لاہور سے قاہرہ تک کی افتتاحی پرواز قاہرہ ہی کی فضاﺅں میں حادثے کا شکار ہو گئی اور کوئی شخص زنذہ نہیں بچا۔ اسی پرواز میں عرفان چغتائی کے علاوہ روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر ابو صالح اصلاحی، روزنامہ امروز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر حمید ہاشمی، اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل اے کے قریشی، نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین میجر جنرل ضیاءالدین اور دیگر اصحاب بھی جاں بحق ہو گئے اور اپنے پیاروں کو سوگوار چھوڑ گئے۔
مرحوم عرفان چغتائی اعلیٰ پائے کے رپورٹر ہونے کے ساتھ مستند لکھاری اور کالم نویس بھی تھے۔ رپورٹنگ کے علاوہ ”معاشرتی نقوش“ کے زیر عنوان انتہائی دلچسپ کالم لکھتے تھے جس میں لاہور کی مجلسی زندگی کے علاوہ تہذیبی اور ثقافتی قدروں سے متعلق دلکش معلومات بھی ہوتی تھیں۔
عرفان چغتائی، حمید نظامی اور حادثہ قاہرہ
May 22, 2013