آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ ایک سرمایہ دار جس نے کبھی زندگی میں کرکٹ کھیلی نہ دیکھی، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق، آصف علی زرداری کی نوازشوں کے صدقے پہلے تو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا پھر ایسی چال چلی کہ آئندہ چار برسوں کے لئے اس کا ”منتخب“ چیئرمین بن بیٹھا۔ یہ وہ شخص ہے جو زندگی میں کبھی یونین کونسل تک کا الیکشن نہیں جیتا۔ ذکاءاشرف یہ تاثردینے میں کامیاب رہا کہ وہ صدرآصف علی زرداری کا ذاتی دوست ہے اور اسی وجہ سے کرکٹ بورڈ کی سربراہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پہلے تو اس تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ آصف علی زرداری دوست نہیں بناتا اپنے اردگرد حواریوں، خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کا ٹولہ رکھتا ہے۔ خوش قسمتی سے ذکاءصاحب بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا پیشرو اعجاز بٹ بڑبولا لیکن صاف گو شخص تھا قدرے منہ پھٹ اس لئے اس نے صحافی برادری اور کرکٹ کے سابقہ کھلاڑیوں کو اپنا مخالف بنا لیا۔ ذکاءاشرف چونکہ کارخانہ دار ہے اس لئے خرید و فروخت کا ماہر ہے۔ یہ پیمانہ زر سے ہر کسی کو ماپنے کا نہ صرف گر جانتا ہے بلکہ وزن بھی کر لیتا ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ نگران حکومت سابقہ حکومت کے مراعات یافتہ افسروں کی طرح انکو بھی فارغ کر دیتی لیکن اس کی بے بسی، بے حسی اور لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ اسے اپنے گردوپیش تک کی خبر نہیں ہے۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اس روایتی سردار کی طرح یہ ہر کسی سے پوچھ رہی ہے ”مجھے دھکا کس نے مارا ہے“ اخبارات میں واضح طور پر لکھا گیا کہ ذکاءصاحب صدر آصف علی زرداری کو ساتھ لیکر سیاسی جوڑ توڑ کے لئے بہاولپور پہنچے۔ انہیں اپنی مل کے ریسٹ ہاﺅس میں ٹھہرایا اور نواب صلاح الدین عباسی سے ملاقات کرانے کی کوشش کی۔ نواب نے ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ اس وقت ہوا جب ساﺅتھ افریقہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی دھنائی ہو رہی تھی اور وہ تینوں ٹیسٹ میچ بری طرح ہار گئی تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ موصوف کرکٹ کے معاملات پر توجہ دیتے لیکن ذکاءصاحب اپنی نوکری پکی کرنے کے چکر میں تھے۔ گورنر پنجاب اور گورنر سندھ کو بھی برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ دونوں کی سیاسی وابستگیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ہندوستان ٹیم بھیجنے پر کچھ ایسا تاثر دیا گیا جیسے دلی فتح کر لیا گیا ہو۔ ساتھ ہی قوم کو ذکاءاشرف نے یہ مژدہ سنایا کہ ہندوستانی ٹیم بھی پاکستان آئے گی۔ ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ تعلقات برابری کی بنیاد پر استوار کرنے چاہئیں کیونکہ یہ بھی غیور قوموں کا شیوہ ہے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہندوستان نے نہ صرف پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ کسی نیوٹرل ملک میں بھی کھیلنے سے گریزاں ہے تمام دنیا کے کرکٹر انڈین پریمیر لیگ کے میچ کھیل رہے ہیں لیکن پاکستان کو متعصب ہندوﺅں نے شودر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ذکا کو اسی بات پر استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا۔
بدقسمتی سے ہماری روایات کچھ ایسی ہیں کہ جب تک دھکے مار کر نہ نکالا جائے لوگ عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں۔ یہی مشورہ ہم نے خان آفریدی کو بھی دیا تھا اس کے کھیل کو دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے جیسے ان تمام سالوں میں وہ سب کچھ بھول چکا ہے۔ کچھ سیکھنے کی نہ اس میں امنگ ہے اور نہ عُمر! خان صاحب نے اب کرکٹ چھوڑ کر سیاست شروع کر دی ہے۔ میاں نواز شریف کو ملنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
خان آفریدی ٹیم میں پرفارمنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعلقات کے زور پر سلیکٹ کئے جاتے ہیں حسب ضرورت تھوڑی بہت بلیک میلنگ بھی کر لیتے ہیں اب جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ آنے والی حکومت ذکاءصاحب کو یک بینی و دوگوش نکال باہر کرے گی اور جون میں لندن میں ہونے والی چیمپئن ٹرافی میں نہ جا پائیں گے تو انہوں نے زرداری سے مشورہ کرکے FAKE الیکشن کا ڈھونگ رچایا ہے۔ یہ کیسا آئین ہے جو راتوں رات خفیہ طورپر بنایا گیا ہے اور جس کے الیکشن کو انتہائی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ الیکشن لڑنے سے پہلے اس کی تشہیر ہونی چاہئے تھی عوام سے اعتراضات لئے جاتے ان پر سیر حاصل بحث ہوتی اور پھر اخباروں میں الیکشن شیڈول ”اناﺅنس“ ہوتا جس طرح پاکستان کا وزیراعظم استعفیٰ دے کر الیکشن لڑتا ہے ذکاءصاحب کو بھی پہلے استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا، پھر دیکھتے منڈی کا کیا بھاﺅ ہے! ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا چور آئین بنا کر انہوں نے پاکستانی عوام سے ایک ظالمانہ مذاق کیا ہے ۔اپنے مقابلے میںایک ڈمی کھڑا کر کے مقابلے کا تاثردیا گیا ہے ۔اب ہو گا کیا؟ آئندہ آنے والی حکومت انہیں فارغ کر دے گی۔ پیسے کے زور پر یہ ملک کے نامور وکیلوں کی ایک فوج کھڑ ی کر دیں گے۔ BALANCE OF CONVENIENCE چونکہ مدعی کے حق میں ہوتا ہے اس لئے اغلباً یہ حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حکومت اور فرد واحد میں کشاکش کا اثر براہ راست کھیل اور کھلاڑیوں پر پڑے گا۔ ان کی کارکردگی یقیناً متاثر ہو گی۔ ہر اٹھتی ہوئی باضمیر آواز زر کے بوجھ تلے دب جائے گی لیکن انکی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑے گا ”کوئی مرے کوئی جیوے سقرا گھول بناشے پیئے۔