اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کی جانب سے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جاری ترقیاتی فنڈز کے اپنے حلقہ میں استعمال کے معاملے پر وزیر اعظم کے خصوصی سکیورٹی اور اس وقت کے سیکرٹری خزانہ کو نوٹس جاری کردیئے، عدالت نے آڈیٹر جنرل کو فنڈز کا ا ٓڈٹ کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ڈبلیو ڈی سے فنڈز اور منصوبوں کی تفصیلات دو ہفتوں میں طلب کرلی گئی ہیں، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ذاتی اور سیاسی تعلقات پر رقم کیسے دی جاسکتی ہے۔ منصوبوں پر کام روک دیا گیا تو رقم کہا گئی، عدالت کے سامنے کوئی سچ بولنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران اکاو¿نٹنٹ جنرل طاہر محمود نے بتایا کہ وزیر اغظم کے پاس فنڈز کے استعمال کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے، لیکن مارچ کے مہینے میں جو رقم ترقیاتی فنڈز کے لیے نکالی گئی وہ ایک غلط اقدام تھا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا رقم جاری کرنے کے لیے آپ پر کوئی دباو¿ تھا، اس پر اکاو¿نٹنٹ جنرل نے کہا جی ہاں وفاقی سیکرٹری خزانہ اور ڈپٹی سیکرٹری خزانہ کا دباو¿ تھا بارہ سال سے یہ ہی ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے اکاو¿نٹنٹ جنرل طاہر محمود سے استفسار کیا، انہوں نے غیر قانونی فنڈز کے اجرا کے خلاف متعلقہ اداروں سے رجوع نہیں کیا۔ طاہر محمود کا کہنا تھا انہوں نے متعلقہ حکام کو خط لکھا تھا جس پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، وزارت خزانہ کے نمائندے نے عدالت کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا سولہ مارچ کو عام سرکاری تعطیل ختم کرکے ج و رقم قومی خزانے سے نکالی گئی وہ علط اقدام تھا جبکہ الیکشن کمشن نے بائیس جنوری کو حکم دیا تھا ترقیاتی رقم جاری نہیں کی جائے گی۔ عدالت نے وفاقی سیکرٹری خزانہ کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس سارے عمل کے ذمہ دار سیکرٹری خزانہ ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا سولہ مارچ کو وزیراعظم کی طرف سے غیرقانونی کام کیا گیا۔ عدالت فیصلہ دے گی چاہے ذمہ دار کوئی بھی ہو نتائج بھگتنے گا۔ اوپر سے نیچے تک سب لوگ ملے ہوئے ہیں۔ ملک میں کوئی ایسی اتھارٹی نہیں جس کو معاملے کی تحقیقات کیلئے ہدایت کریں۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا عام آدمی سے بھی پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا یہ رقم سابق وزیراعظم پرویز اشرف کے حلقہ میں خرچ ہوئی۔ پاکستان کا وزیراعظم بادشاہ نہیں کہ جو مرضی کرتا پھرے۔ وزیراعظم کو بھی قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنا ہوتا ہے۔ عدالت کو سوئی سدرن اور سوئی نادرن کے وکیل نے بتایا کہ مارچ میں جو فنڈز جاری ہوئے اس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ عدالت نے سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے فنڈز سے متعلق تمام تفصیلات طلب کر لیں اور جاری کردہ ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر وزیراعظم کے خصوصی سیکرٹری اور اے جی پی آر پر دباﺅ ڈالنے پر اس وقت کے سیکرٹری خزانہ عبدالخالق کو نوٹس جاری کر دیئے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بجلی کی پیداوار کے لئے پیسہ نہیں اور لوگ لوڈ شیڈنگ سے مر رہے ہیں اور سابقہ حکومت کی حالت یہ ہے کھربوں روپے ترقیاتی فنڈز سے نکال کر غیر متعلقہ لوگوں اور سکیموں پر خرچ کردیئے گئے اتنے دنوں سے پوچھ رہے ہیں کوئی وضاحت کرنے کو تیار ہی نہیں۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر روک دی گئی، نوجوان جو ملک کا مستقبل ہیں ان کے وظائف کا پیسہ روک کر غیر متعلقہ جگہوں پر خرچ کردیا گیا، کھانے کے لئے سب ملے ہوئے ہیں کسی کو کوئی احساس نہیں، مشکل یہ ہے اب کس پر بھروسہ کیاجائے 1985ءسے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، پابندی کے باوجود پیسے جاری کئے گئے راجہ بشارت، مونس الٰہی، سردار مشتاق اور محمود خان اچکزئی کو پیسے دیئے گئے۔ ثناءنیوز/ نوائے وقت نیوز کے مطابق اکاﺅنٹنٹ جنرل کا کہنا تھا اے جی پی آر کو دھمکیاں دے کر فنڈز جاری کروائے گئے۔