دانش اور توانائی پر کسی کی اجارہ داری نہیں

دانش اور دانائی کسی کی میراث نہیں اور نہ ہی دانش ودانائی تعلیم کی محتاج ہے۔ اخبارات میں لکھنے والے بڑے بڑے دانشوروں کے مقابلے میں اگر نوائے وقت کے کسی عام قاری (اگر تعلیمی اسناد کے اعتبار سے وہ کم پڑھا لکھا بھی ہو) سے آپ کی کبھی گفتگو ہو تو وہ بات چیت کے دوران ایسے ایسے دانشمندانہ نکتے بیان کریگا کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دن مجھے وہاڑی کے قریب گگومنڈی سے ایک زمیندار اسلم خان کا فون آیا کہ ہم نے ایٹم بم پاکستان کے دفاع کیلئے نہیں بنایا بلکہ بجلی، گیس، ٹیکس چوروں اور ملک کی کرپٹ ترین بیورو کریسی کے تحفظ کیلئے بنایا ہے۔ نوائے وقت کے یہ قاری فرما رہے تھے کہ تمام سرکاری محکمے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ بدعنوان افسروں اور اہلکاروں نے ہمارے پیارے وطن کو اتنی بے دردی سے لوٹا ہے کہ جیسے یہ سب لوگ کسی دوسرے ملک کی مخلوق ہے اور یہ صرف پاکستان کو لوٹنے کیلئے یہاں آئے ہیں۔ ان کا لوٹ کھسوٹ کا مشن مکمل ہو گا تو یہ پاکستان سے واپس چلے جائیں گے۔ …؎
کھایا گیا ہے بانٹ کے کس اہتمام سے
جیسے مرا وطن کوئی چوری کا مال ہے
 اپنی گفتگو کے آخر میں وہاڑی کے اسلم خان نے اپنا یہ جملہ دوبارہ دہرایا کہ ایٹم بم ان ہی لٹیروں اور کرپشن کے بڑے بڑے مگرمچھوں کی حفاظت کیلئے بنایا گیا ہے اس ایٹم بم نے پاکستان کے غریب عوام کو کچھ نہیں دیا۔ میں نے اپنے اخبار کے محترم قاری سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایٹم بم تو پاکستان کو بیرونی دشمنوں کے مذموم عزائم سے محفوظ رکھنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس میں ایٹم بم کا کیا قصور ہے۔ اگر پاکستان کے اندرونی دشمن کرپشن، لوٹ مار یا دہشت گردی کے مختلف حربوں کے ذریعے وطن عزیز کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن نوائے وقت کے محترم قاری کا یہ اصرار تھا کہ اگر ایٹم بم پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ضروری تھا تو میں پاکستان کے دفاع کو مضبوط ترین بنانے کے واسطے اس سے بھی بہتر تجویز دے سکتا ہوں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ میں کردار کی پاکیزگی، ارادے کی پختگی اور دیانت داری کے اوصاف نہ ہوتے تو وہ کبھی پاکستان کے قیام کا معرکہ سرانجام دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ قوم کے اجتماعی مفاد کیلئے قائداعظمؒ اپنا سب کچھ قربان کر دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے لیکن ہمارے موجودہ تمام سیاست دان قوم کے اجتماعی مفادات سے مکمل طور پر لاپرواہ ہو چکے ہیں جو کوئی ہمارے ملک میں سب سے بڑا ذخیرہ اندوز، منافع خور، بجلی چور، ٹیکس چور اور سمگلر ہے وہ آسانی سے پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے۔ اگر ہمارے حکمران خود دیانت دار ہوں اور ملک و قوم کے مفاد کو اپنی ذاتی اغراض کے مقابلے میں مقدم سمجھتے ہوں تو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ناجائز منافع خور تاجر اور بدعنوان سرکاری محکمے جنہوں نے عوام کے لئے زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا ہے ان کو ہمارے حکمران نیست ونابود کر دیتے لیکن ہمارے ملک میں تو جو جتنا بڑا رشوت خور، بددیانت اور قومی خزانے کو لوٹنے والا ہے وہ اتنا ہی زیادہ قانون کی نظروں میں ’’معزز‘‘ ہے۔ جن برائیوں نے اور بدعنوانی کی لعنت نے ہمارے معاشرے کو اندر سے مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ ایسی برائیوں کو سختی سے کچل دینے کی ضرورت تھی مگر ہمارے ملک میں اسکے برعکس ہو رہا ہے جو لوگ ملک میں اجتماعی بھوک، مفلسی اور محتاجی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور ایسی غربت جو لوگوں کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اس غربت کے ذمہ دار قومی لٹیروں کو سزا دینے کا ہمارے ملک میں کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کئی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اگر ہمارے موجودہ حکمران ملک و قوم کے حقیقی مسائل حل نہیں کر سکتے تو پھر وہ اپنی نااہلی کو تسلیم کرکے سیاست کے میدان سے باہر کیوں نہیں نکل جاتے۔ صرف شہباز شریف کے خادم پنجاب کہلانے سے تو عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کیا ہماری بیورو کریسی، ہمارے سرکاری افسر اور اہلکار خود کو عوام کا خادت اور ملازم سمجھتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں عوام کی جس طرح تذلیل ہوتی ہے۔ ہر جائز کام کیلئے عوام سے جس بے خوفی سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ دکاندار جس قیمت پر بھی اپنا مال بیچنا چاہتا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کو بھی جتنا چاہئے کوئی مہنگا بیچے، کسانوں سے کھاد اور بیج کی منہ مانگی قیمت وصول کی جائے۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر ادویات تک میں جتنی مرضی ملاوٹ کی جائے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ اگر موجودہ گلاسڑا اور بوسیدہ نظام تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والی قیادت پاکستان کو میسر آ جائے جو مظلوم اور محروم طبقوں کے غصب شدہ حقوق انہیں واپس دلوا دے جو پاکستان سے رشوت ستانی اور بدعنوانی کے ناسور کو جڑوں سے اکھاڑ دے جو قومی لیٹروں کے پیٹ پھاڑ کر قوم کے خزانے سے لوٹا ہوا تمام مال ان سے چھین کر قومی خزانے میں واپس جمع کروا دے، جو پاکستان میں روز گار کے قابل ہر شہری کو اسکی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت دلوا کر اس کے کام کے مطابق اسے اجرت دلوانے کا اہتمام کر دے تو آپ کو پاکستان کے دفاع کیلئے ایٹم بم کی ضرورت نہیں رہے گی پھر پاکستان کے 18 کروڑ عوام میں سے ہر پاکستانی خود ایٹم بم بن جائیگا۔ ایک خوشحال ترین پاکستان ہی محفوظ ترین پاکستان بن سکتا ہے۔ اگر ایک ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ہم نے مالی امداد کیلئے اپنی جھولی امریکہ یا کسی اور طاقت کے سامنے پھیلانی ہے تو پھر ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم کے طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ نہیں سکتے۔ پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے اصل محافظ اس ملک کے 18 کروڑ عوام ہیں۔ اور اصلی جمہوریت بھی اس نظام حکومت کو کہا جا سکتا ہے جس نظام حکومت میں ملک کے تمام وسائل جمہوری یعنی عوام کی فلاح و ترقی کیلئے استعمال کئے جائیں۔ اس نسخہ پر عمل کیا جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

ای پیپر دی نیشن