”.... مزا چکھا دیو مودی نوں!“

ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے منعقدہ تقریب میں اپنے صدارتی خطبہ کے دوران مجاہد تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو لہراتے ہوئے کہا کہ ”میں نے یہ چھڑی بھارت کو سیدھا کرنے کے لئے اٹھائی ہے“ کسی ٹیڑھے شخص کو سیدھا کرنے کے لئے جو چھڑی اٹھائی جائے اسے ”قمچی“ کہتے ہیں۔ یعنی زدوکوب یا مارنے والی چھڑی۔ جناب نظامی کے پاس ”مجاہد“ کی سند کے ساتھ تلوار بھی ہے، جو انہیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان میں خدمات انجام دینے پر مرحمت فرمائی تھی۔ لیاقت علی خان صاحب نے بھارت کو اپنا ”مکا“ دکھا کر خبردار کیا تھا کہ وہ سیدھا ہو جائے۔
جناب حمید نظامی کے بعد جناب مجید نظامی نے استحکام پاکستان کے لئے اپنے قلم کو علم بنائے رکھا اور اس سے کئی بار کاٹ دار تلوار کا کام بھی لیا۔ 20 مئی کی تقریب میں اپنی چھڑی (قمچی) کو لہرا کر جنابِ مجید نظامی نے بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی کو خبردار کیا کہ اگر وہ پاکستان کے لئے ”موذی“ ہے تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا“ عام آدمی کو ایذا دینے والے ظالم، جابر اور شریر شخص کو ”موذی“ کہا جاتا ہے۔ تین بار بھارتی صوبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے بعد شری مودی کا موذی ہونا تو ثابت ہو چکا ہے۔ استاد رشک نے کہا تھا
”موذی پنے میں، قلمیں زیادہ ہیں زلفوں سے
باور نہ ہو تو سانپ کے بچوں کو پال دیکھ!“
مودی جی کی تو داڑھی بھی ہے۔ جناب نظامی کہتے ہیں کہ ”بھارت میں حکومت مودی کی ہو یا کسی موذی کی، دونوں ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے کتنا موذی ہے؟ شری نریندر دوسرے مودی ہیں جو ہندوستان کے وزیراعظم بنے۔ ان سے قبل ایک اور مودی (بنیا یا بقال) ہیمو بقال پہلے ہندوستان کے بادشاہ عادل شاہ سوری کا چیف آف دی آرمی اور پھر وزیراعظم بنا اور 7 اکتوبر 1556ءمہاراجا بِکرما جیت کے نام سے ہندوستان کے تخت پر بیٹھ گیا لیکن 5 نومبر 1556ءکو مغل بادشاہ اکبر کے اتالیق اور سپہ سالار بیرم خان نے ہیمو مودی (بقال) کا سر قلم کرکے اکبر کو ”غازی“ کا خطاب دے دیا۔ نریندر مودی نے اگر پاکستان پر حملہ کیا تو خود میدان میں اترنے کے بجائے اپنے چیف آف آرمی کی ڈیوٹی لگائیں گے اور ان کے مقابلے میں جنرل راحیل شریف پاکستان کی مسلح افواج کی کمان کریں گے۔
جناب مجید نظامی قائداعظم کے حوالے سے ”کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ“ قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف بھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ جنرل راحیل شریف ازخود بھارت کے پنجے سے اس کی شہ رگ کو چھڑانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان دہشت گردوں کے خلاف جو 8 ہزار فوجی افسروں اور جوانوں سمیت 50 ہزار سے زیادہ معصوم اور بے گناہوں کے خلاف جنہیں کانگریسی علما کی صلبی معنوی اولاد تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ”ہمارے اپنے لوگ اور ریاست پاکستان کے ”سٹیک ہولڈرز“ تسلیم کرا چکی ہے اور وہ خود انہیں ”فرزندان پاکستان“ قرار دے چکے ہیں۔
اگر دہشت گرد ”فرزندان پاکستان“ ہیں تو ان کے ہاتھوں شہید ہونےوالے پاک فوج کے وہ افسران اور جوان کون تھے جن کے دھڑوں سے ان کے سروں کو الگ کرکے دہشت گرد فٹ بال کھیلتے رہے اور اب وہ اپنے ”فری پیس زون“ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت کی دہشت گرد جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہ صرف گاندھی جی کی سیکولر جماعت انڈین نیشنل کانگریس کو بلکہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف کفر کے فتوے دینے والے جمعیت علمائے ہند کے کانگریسی مولویوں کو بھی اکھاڑے سے باہر پھینک دیا ہے۔ گاندھی جی نے کانگریس کے منشور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کو مسلسل سات بار کانگریس کا صدر منتخب کروا دیا تھا۔ قائداعظم نے مولانا آزاد کو کانگریس کا “شو بوائے“ کہا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے 14 کروڑ مسلمانوں میں سے اپنے کسی ایک بھی مسلمان (شو بوائے) کو لوک سبھا کا رکن منتخب کرنا مناسب نہیں سمجھا تو کشمیر کاز کے چیمپئن جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ”روحانی فرزند جناب آصف زرداری نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ”کیا ہی اچھا ہو کہ ہم 30 سال تک مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کر دیں زرداری صاحب کو مسئلہ کشمیر منجمد کرنے کے لئے صرف 5 سال کی مہلت مل سکی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا لیکن موصوف چاہتے ہیں کہ ”امن کی آشا“ کے ساتھ جپھیاں ڈال کر ہی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرا لیا جائے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو وزارت امور کشمیر وفاقی وزیر کی کی مراعات کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی چیئرمین شپ میں کشمیر کمیٹی اور صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر کے بیرونی دوروں پر ہر ماہ خرچ ہونے والے اربوں روپے کیوں نہ بچائے جائیں؟ کیوں نہ اس رقم کے بھارت سے آلو، پیاز اور ٹماٹر درآمد کئے جائیں؟
جناب مجید نظامی قرآن پاک کے گھوڑوں سے مراد ہمارا ایٹم بم اور میزائل لیتے ہیں۔ بعض غیر سیاسی لوگ آپس میں بات کرتے ہیں کہ ”کیہ اساں ایٹم بمب بھنگ گھوٹن لئی بنایا اے؟“ ایک اہم بات کہ آپ وزارت دفاع سے دفاعی بجٹ کی تفصیلات تو دریافت کریں لیکن پارلیمان کی دفاعی کمیٹی میں ان کیمرہ دفاعی بجٹ کے بارے میں سیمینار منعقد کرکے اور ان میں وزارت دفاع کی کھنچائی کرکے اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنانے کا کیا مقصد؟ اور ہاں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے مشترکہ اجلاس کے بعد یہ اعلان کافی ہے کہ ”پاکستان خطے میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہم بھارت اور افغانستان میں بننے والی نئی حکومتوں سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ پہلے ان سے تو پوچھ لیں خاص طور پر مودی جی سے۔ جناب مجید نظامی کے پیغام پر شاعر سیاست نے کہا
چنگا ہووے سانبھ کے رکھے اپنی داڑھی بودی نوں
کتے اجاڑ نہ دیوے اپنی دھرتی ماں دی گودی نوں
جیکر ساڈی سرحداں ول ویکھے میلیاں اکھاں نال
پاکستان دے غازیو مردو! مزا چکھا دیو مودی نوں

ای پیپر دی نیشن