اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) بھارت کی طرف سے وزیراعظم نوازشریف کو نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں دیگر سارک سربراہان سمیت شرکت کی دعوت پاکستان کیلئے قدرے غیرمتوقع ثابت ہوئی ہے جس کا اسلام آباد نے فوری طور پر خیرمقدم نہیں کیا۔ ایک مستند سرکاری ذریعہ کے مطابق اس دعوت کے مثبت پہلو بھی ہیں اور کچھ پہلوئوں پر اسلام آباد کو تحفظات بھی ہیں تاہم نومنتخب بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برادری میں شرکت کا وزیراعظم نوازشریف، تمام تر آراء کو سامنے رکھ کر خود فیصلہ کریں گے۔ اس ذریعہ کے مطابق اس دعوت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ دہلی میں وزیراعظم نواز شریف کی نریندرا مودی کے علاوہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد سے بھی ملاقات طے پا سکتی ہے جس کا عام حالات میں کوئی امکان نہیں۔ اسلام آباد اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ وزیراعظم کی دہلی یاترا اسی صورت میں مفید ثابت ہو سکتی ہے جب تقریب حلف برداری میں شرکت کے علاوہ پاک بھارت وزرائے اعظم کی ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت دوطرفہ ملاقات بھی ہو۔ دو طرفہ ملاقات کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے رکے ہوئے مذاکرات کا احیاء ہو سکتا ہے جو ایک غیر معمولی پیشرفت ہو گی۔ اسلام آباد میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ دہلی کے دوران یقیناً نواز شریف نومنتخب بھارتی ہم منصب کو دورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت دیں گے جس کا مثبت جواب آنا چاہئے۔ اگر نواز شریف کے دورہ دہلی کے ثمرات سامنے نہ آئے تو دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ وزیراعظم نواز شریف کو سیاسی طور پر بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر وزیراعظم پاکستان دہلی جاتے ہیں تو بھارتی دعوت کا مثبت جواب دیتے ہوئے پاکستان ،ایک بار پھر گیند بھارت کے کورٹ میں ڈال دے گا۔ نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں سارک سربراہان کے ساتھ شرکت کی دعوت کو ایک طاقتور ملک کی طرف سے خطہ کے نسبتاً چھوٹے ملکوں کیلئے دعوت کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس باعث ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بجائے،وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف مذکورہ تقریب میں وزیر اعظم کی نمائندگی کریں۔اس ذریعہ کے مطابق اختتام ہفتہ سے پہلے بھارتی دعوت کا جواب دے دیا جائے گا۔