ایبٹ آباد میں اسامہ ڈرامہ صدر ابامہ کو دوسری بار جتوانے کے لئے ایک الیکشن سٹنٹ تھا۔ اس سے پہلے صدر بش کو دوسری بار جتوانے کے لئے بھی اسامہ کو استعمال کیا گیا۔ ایک بیان ان کے نام سے چلوایا گیا جو دہشت گردی کے فروغ کے لئے بہانہ بنا کے لوگوں کو امریکی لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا۔ ہر کہیں لوگ بے وقوف بن جاتے ہیں۔ زندہ اسامہ سے بھی کام لیا گیا اور مردہ اسامہ سے بھی کام لیا گیا۔ میں اسامہ کے لئے نظریاتی طور پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ عالم اسلام میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بہانے کے طور پر اسامہ کا نام لیا گیا اور آخر کار سب ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔
ایبٹ آباد اسامہ ڈرامہ سے امریکہ نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔ پاکستان بھی رسوا ہوا بلکہ پسپا ہوا۔ چند دن کے مصنوعی شور شرابے کے بعد رات گئی بات گئی کے مصداق معاملہ ختم ہو گیا۔ پھر اس گڑے مردے کو اکھاڑنے میں کیا مفاد پنہاں ہے۔ کیا چکر چلایا جا رہا ہے کہ پھر اسے سامنے لایا گیا ہے۔ پہلے کہا جاتا رہا کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج کو خبر نہ تھی۔ ان دونوں کی لاعلمی میں یہ معرکہ آرائی کی گئی۔ یہ بھی بہت بڑی نااہلی تھی کہ ایک دوسرے ملک کے دو ہیلی کاپٹر ہماری سرحدی خلاف ورزی کر کے آگے تک آئے۔ کچھ لمحے تو اس پرواز میں بھی لگے ہوں گے۔ گھنٹہ بھر کارروائی پر بھی لگے ہوں گے۔ ایک ہیلی کاپٹر خراب ہوا۔ اس کی مرمت بھی ہوئی ہو گی۔ ہماری حکومت اور ہماری فوج کو کچھ پتہ نہ چلا۔ امریکی بڑے سکون سے مہم جوئی کر کے چلے گئے۔ ساتھ میں ان کے بقول اسامہ کی لاش بھی لیتے گئے۔
یہ لوگ اتنے بزدل ہیں کہ اسامہ کی لاش سے بھی ڈرتے ہیں۔ لاش کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ بعد میں کسی امریکی کی یہ رپورٹ بھی شائع ہوئی کہ اسامہ کی لاش سمندر میں نہیں پھینکی گئی تھی تو پھر وہ کہاں گئی؟ خوف یہ تھا کہ اس کا جنازہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اس کی قبر ہوتی تو وہاں ایک مرکز انتہا پسند مسلمانوں کو مل جاتا۔ جبکہ القاعدہ خود امریکہ نے بنائی ہے۔ اب داعش بھی امریکہ نے بنائی ہے۔
جنرل کیانی اور جنرل پاشا تو بہت پکے سیاستدان ثابت ہوئے۔ بالکل بولے ہی نہیں۔ جنرل کیانی آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا دونوں ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بات مناسب نہیں ہے مگر بات کچھ نہ کچھ اس طرح سچ ہے کہ وطن عزیز کی رسوائی بھی ہوئی اور پسپائی بھی ہوئی۔ عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں۔
پاکستانی حکومت بلکہ زرداری حکومت نے جشن منایا۔ ملازم اور نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر ابامہ کو مبارکباد کا پیغام بھیجا اور پھر عوام کے غم و غصے کے بعد واپس بھی لے گیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے ایک امریکی اخبار میں اس ’’خوشی‘‘ میں شرکت کے لئے کالم لکھا۔ انہوں نے بھی تردید کر دی۔ پاکستانی حکومت کی غیر سیاسی جذباتیت سے تمام ملبہ حکومت کی جھولی میں آ گرا۔ اور پاک فوج کا خیال بھی لوگوں کو نہ آیا۔ جرنیل اس معاملہ میں ہوں گے مگر لوگوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر لوگ جنرل کیانی سے اتنے خوش نہ تھے۔ اب جنرل راحیل کے ساتھ تو سب لوگ محبت کرتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وطن عزیز کی ناکامیوں اور بدنامیوں سے بچانے کے لئے وہ کچھ نہ کچھ کریں گے۔ حیرت ہے کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو پاک نہیں سمجھاتا تھا مگر جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر کو پاک فوج سمجھا جاتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب کی شاندار پرفارمنس سے سب مطمئن ہیں۔ کراچی میں سازشیں ہو رہی ہیں۔ قائم علی شاہ نے جو ماحول کراچی میں قائم کر رکھا ہے۔ اس کا جادو ٹوٹے گا اور ’’صدر‘‘ زرداری کی جادو کی چھڑی شاہ صاحب کو بچا نہ سکے گی۔ سنا ہے رحمن ملک اور ڈاکٹر قیوم سومرو بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زراری کی بڑھکوں کے بعد الطاف حسین کا جوش خطابت بھی کم پڑ گیا ہے۔ برادرم کرنل ضرار موڈ میں ہوں تو سندھ اور کراچی کے حالات پر بہت زبردست تبصرہ کرتے ہیں۔
سیمور ہرش کی اس رپورٹ کے بعد تو حد ہو گئی ہے۔ اس کے بقول زرداری حکومت اور پاک فوج کو سارے امریکی منصوبے کا علم تھا اور ان کے تعاون کے بغیر یہ کھلم کھلا کارروائی ممکن ہی نہ تھی۔ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کی دوغلی پالیسی سے باخبر ہیں۔ جنرل راحیل نے دوٹوک پالیسی اختیار کی ہے۔ اگر یہ عمل کسی منصوبے یا زرداری کی ’’مفاہمت‘‘ سے پایہ تکمیل تک پہنچا تو اور بھی خطرناک ہے۔ امریکہ ہمارے نیوکلیئر اثاثوں پر غلط نظر رکھے ہوئے ہے۔ بہرحال جنرل راحیل جیسے سپہ سالار آتے رہے تو ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سیمور ہرش کی رپورٹ میں کسی میجر ڈاکٹر عامر عزیز کا ذکر بھی ہے اور یہی بات اس رپورٹ کو ایک سازش سے بڑھ کر سازش بناتی ہے۔ ہم کسی میجر ڈاکٹر عامر عزیز کو نہیں جانتے ہم ڈاکٹر عامر عزیز کو جانتے ہیں وہ دنیا کا مانا ہوا پاکستانی آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر ہے۔ دنیا بھر سے بلکہ پورپ اور امریکہ سے بھی علاج کے لئے لوگ اس کے پاس آتے ہیں۔ وہ درد مند دل کا آدمی ہے۔ بلکہ وہ ہنرمند بھی اور درد مند بھی ہے۔ سچا مسلمان اور پاکستانی ہے۔ فلاحی مزاج رکھتا ہے اور ہمدرد شخصیت کا مالک ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے میں اہل اور اہل دل کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔
برادرم ڈاکٹر عامر عزیز اسامہ کے علاج کے لئے افغانستان گئے تھے اور وہ ایک سچے ڈاکٹر کے طور پر برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ صدر اوبامہ کے لئے بھی حاضر ہیں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو بہت حاضر ہیں جب کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہو گا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت کی سیاست میں اسامہ کو الجھایا گیا اور ڈاکٹر عامر عزیز کو اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ جو کچھ رپورٹ میں لکھا گیا ہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ یہ گندہ کام بین الاقوامی سیاست میں بہت ہوتا ہے۔
اس حوالے سے برادرم توفیق بٹ کا کالم بہتر رہنمائی کرتا ہے۔ ایاز امیر نے بھی کالم لکھا اور ڈاکٹر عامر عزیز کے لئے سیمور ہرش کی رپورٹ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وہ بہت مرتبے کے کالم نگار ہیں۔ صورتحال کے پتہ چلنے پر دوسرے کالم میں تردید کی ہے۔ میرے خیال میں صرف یہی بات سیمور ہرش کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔ امریکی حکومت اب تک ایبٹ آباد کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا نام لیتی رہی ہے۔ جیل سے اس کی رہائی کے لئے امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس سے بھی زیادہ کوشش کر رکھی ہے۔ میرے خیال میں تو ایبٹ آباد میں کوئی داخل ہوا ہی نہیں۔