صبح سویرے رانا نذالرحمن چلے آئے۔ ان کے آنے کا مقصد تو واضح تھا مگر ان کی بغل میں دو کتابیں تھیں۔مجھے تعجب ہوا کہ ابھی تو ان کی ضخیم خود نوشت کا مطالعہ مکمل نہیں ہو سکا مگر یہ تو مزید کچھ چھپوا لائے ہیں، کتابوں پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ یہ کسی اور کی تصنیف ہیں مگر ان کتابوں کی اہمیت کے پیش نظر رانا صاحب نے زر کثیر خرچ کیا ہے اور کتابیں دوستوںکو ہدیہ کرتے ہیں۔میرا اپنا نظریہ یہی ہے کہ کتاب بیچنے سے زیادہ پڑھنے کی چیز ہے، میں نے ضرب عضب اور اے وطن کے سجیلے جوانو،وسیع پیمانے پر بانٹ چھوڑی ہیں۔
آج اگر لاہور میں کوئی چاﺅسر ہوتا تو وہ اپنی کتاب کے دیباچے میں جن کرداروں کا بطور خاص ذکر کرتا، ان میں رانا صاحب کی ذات نمایاں ہوتی، اس لئے کہ وہ اپنی وضع کے انسان ہیں،تقریبا ایک صدی بہ ہوش وحواس دیکھ چکے ہیں اور ہزار ہا واقعات کے عینی شاہد ہیں، وہ سترے بہترے بھی نظر نہیں آتے،ان کا حافظہ بلا کا ہے، جزئیات تک بیان کر سکتے ہیں اور وہ بھی کھری کھری۔وہ کسی دوسرے شخص کا اسی قدر احترام کرتے ہیں جس کے وہ لائق ہوتاہے،ورنہ اگلے کی پھٹیاں اکھیڑ دیتے ہیں۔
میں نے کتابوں کے ذکر سے بات شروع کی اور رانا صاحب درمیان میں آگئے، یہ بھی ضروری تھا، یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں ، نئی نسل انہیں نہیں پہچانتی مگر یہ ہماری سیاسی، مذہبی، تہذیبی تارخ کا چلتا پھرتامرقع ہیں۔
فوری طور پرایک کتاب کا ذکر کرنے پر مجبور ہو گیا ہوںاور وہ ہیں کوئی مستری صاحب جن کی عزت مولانا ابواکلام آزاد، اور مولانا مودودی بھی کرتے تھے،اور کتنے جید علما اور سیاستدان ہیں جو ان کے قدر دان تھے۔ مستری صاحب عظمتوں کا مینار تھے۔ایسی بلند پایہ ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں،جیسے مجدد الف ثانی کاظہور کبھی کبھار ہوتا ہے۔
یہ کوئی پونے دو سو صفحات کی کتاب ہے، ہدیہ کوئی نہیں لیکن اس کے ایک ایک صفحے پر نقش ہونے والا ہر لفظ موتیوں سے تولا جاسکتا ہے۔اسے مستری صاحب کے فرزند عالی مقام رحمن صدیقی نے مرتب کیا ہے، وہ خود بھی گوشہ نشین شخص ہیں، کہیں مظفر آباد کے کونے میں۔کتاب کا پیش لفظ رانا نذالرحمن کا تحریر کردہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ نہرو نے ابوالکلام آزاد سے ملنا ہوتا تو تین دن بعد کا وقت ملتا جبکہ خود مولانا آزاد کا حال یہ تھا کہ مستری صاحب کو ننگے پاﺅں ملنے جاتے۔مستری صاحب نے آزاد کی حزب اللہ میں شمولیت کی مگر آزاد نے کانگرس کا رخ کیا تو مستری صاحب نے ان سے منہ موڑ لیا اور پھر مو لانا مودودی کے ہمرکاب ہوئے، پہلے پہل جماعت اسلامی کی جن لوگوں نے بنیاد رکھی ، ان میں مستری صاحب بھی شریک تھے۔مگر جماعت اسلامی نے سیاست میں منہ مارا تو مستری صاحب ادھر سے بھی بد ظن ہو گئے۔اس کے بعد ان کی گوشہ نشینی کا دور آیا، وہ خوشاب کی وادی سون سکیسرچلے گئے اور انہی کی خاموش پہاڑیوں کے دامن میں داغ مفارقت دے گئے۔مستری صاحب کے بارے میں مولانا موددودی کا ایک فقرہ مشہور ہوا کہ مجھے ان جیسے پانچ شخص مل جائیں تو میں انقلاب برپا کر دوں۔
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے جید عالم دین اور مفسر قرآن نے مستری صاحب کو دور حاضر کا ابوذر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ زیر نظر کتاب کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے مولانا آزاد اور مولانا مودودی کے مابین ڈارون کے فلسفہ ارتقا کی گمشدہ کڑیاں مل جاتی ہیں۔
ریاست کپور تھلہ میں مستری صاحب کے مکان کی بیرونی دیوار پر ایک کتبہ نصب تھا جس پر یہ عبارت کندہ کی گئی تھی کہ بات دل و دماغ سے زبان و قلم تک پہنچ چکی، اب کوئی ہے جو عمل کی منزلوں میں ساتھ نبھائے۔دوسرے لفظوں میں یہ اذان کے الفاظ کاترجمہ ہے کہ کوئی ہے جو فلاح کی طرف قدم رکھے۔ دنیا میں وعظ و نصیحت کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن بات عمل کی ہے، حرکت کی ہے، سرگرم ہونے کی ہے۔ رحمن صدیقی نے دیباچے میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئی نسل میں سے ایسے با ہمت افراد ضرور نکلیں گے جومستری صاحب کے افکار و خیالات کو سمجھیں گے اور ان پرعمل پیراہونے کی جرات کریں گے۔
رانچی کی نظر بندی کے زمانے میں مولانا آزاد نے درخواست کی مستری صاحب خطبہ جمعہ آپ ارشاد فرمائیںاور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آزاد نے بے ساختہ کہا کہ آپ کے سر سے آسمان تک ایک مینارہ نور مشاہدے میں آیا۔
مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری نے ان کا قلمی خاکہ یوں کھینچا ہے۔میانہ قد، گداز بدن۔ لمبوتری سفید ڈاڑھی،سر کے بال بھی سفید اور حجام کی عنائت سے بے نیاز۔بڑی بڑی رسیلی آنکھیں،گندمی رنگ،کبھی سفید کھدر کا کرتا، اور اسی کا شرعی پاجامہ ،چمڑے کا جوتا۔کبھی برہنہ سر اور کبھی عمامہ بر سر۔
مولانا جعفر شاہ پھلواری بیان کرتے ہیں کہ میں کپور تھلہ کی مسجد میں درس قرآن دیتا تھامگر جب مستری صدیق آ جاتے تو میں ان کے لئے مسند خالی کر دیتا، خدا جانے یہ ملکہ انہیں کیسے حاصل تھا کہ کسی تیاری کے بغیر وہ ترجمہ و تفسیر قرآن اس روانی سے پیش کرتے کہ جید علما بھی حیرت زدہ رہ جاتے۔ مستری صاحب کی تعلیم گو واجبی تھی لیکن مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی صحبت نے انہیں صیقل کر دیاتھا۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی ایک بلند پایہ اسکالر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کی مسلم لیگ نے اسلامی نظام کی ترتیب کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جس کے کنوینر نواب آف چھتاری بنے۔اس کا پہلا اجلاس دارالعلو م دیو بند میں ہوا، شرکاءمیں مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی،مولانا عبدا لحامد بدایونی ، مولانا مودودی اور مستری محمد صدیق تھے۔ان جید علماءکی محفل میں اس سادہ منش مسلمان کی شرکت سے پتہ چلتا ہے کہ علم کے ساتھ عمل کو بھی اہمیت حاصل ہے، مستری صاحب ایک با عمل انسان تھے،فقط دعوت و ارشاد تک محدود نہ تھے۔
مستری صاحب تاریخ کی کہکشاں کی زینت بن چکے ، نئی نسل ان کے نام اور کام سے آگاہ نہیں مگر زیر نظر کتاب نے انہیں زندہ جاوید کر دیا ہے، امر بنا دیا ہے اور آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں انہیں ممتاز مقام پر فائز کر دیا ہے۔ اس کتاب میں انہیں خراج تحسین پیش کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔کتاب پڑھنے کے شائقین رانا نذالرحمن سے ان کے فون نمبر 0300-4161200 پر رابطہ کر سکتے ہیں، کتاب فری ملے گی۔تاریخ کے گمنام ہیروز کو رانا صاحب نے زندہ کر کے ایک قومی خدمت انجام دی ہے۔
رانا نذرالرحمن صاحب اگر ہر جمعرات کو غریب خانے پر کسی نادر کتاب کے ساتھ تشریف لے آیا کریںتو میں ہفتہ وار ایک کالم کتابوں کے لئے وقف کر دوں، علم تو انہی کتابوں سے ملتا ہے، سیاست تو نری مغز کھپائی ہے۔