صدرِ سُخن وَر کے، نظریاتی اتالِیق؟

یہ لطیفہ نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ایک امیدوار ووٹ مانگنے کے لئے Door to Door (دربدر) جا رہے تھے کہ ایک ووٹر نے اُس کے دونوں ہاتھوں کو چُومتے ہوئے کہا ’’چودھری جی! تہانوں کِیہ؟ تُہاڈے کُتّیاں نُوں وی ووٹ دیاں گے!‘‘
A Lucky Dog
ہمارے ہاں صِرف ’’اصحاب کہف‘‘ کے کُتّے کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اصحابِ کہف وہ سات شخص جو دیتانوس بادشاہ کے خوف سے ایک غار میں چُھپ کر 309 برس تک سوتے رہے۔ سگِ اصحابِ کہف کو انسان کے زمرے میں داخل کرتے ہوئے حضرت امیرؔ مینائی نے کہا تھا…
’’سگِ اصحابِ کہف، انسان کے زمرے میں داخل ہے‘‘
انگریزبڑی فراخدل قوم ہے۔ وہ ہر خوش قِسمت (قِسمت کے دھنی) انسان کو A Lucky Dog کے نام سے پکارتی ہے۔ "Axact" نے مزید فراخدلی دکھائی اُس نے کُتّے کو (On Line) "Master" کی ڈگری جاری کر دی۔ اب وہ "Lucky Dog" ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کُتیائی‘‘ کیسے کرے گا؟ وہ ڈگری ہولڈر ہے۔ (حضرتِ عِیسٰیؑ کے گدھے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’خرِعِیسٰیؑ اگر بمکّہ روَد، چوں بیاید ہنوز خرباشد‘‘ مجھے تو ڈگری یافتہ کُتّے پر ترس آتا ہے۔ اُس نے ماسٹر کی ڈگری گلے میں ڈال کر اپنی کُتّا برادری کو کتنا مرعوب کِیا ہوگا؟ ممکن ہے اُس کے لئے کسی ’’ اعلیٰ نسل کے کُتّا گھرانے‘‘ سے کوئی اچھا رِشتہ بھی آیا ہو لیکن کُتّے کی مالکن نے اُس سے پہلے ہی اپنے "Lucky Dog" کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ نواب محمد اسلم رئیسانی بھی اُس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ صاف کہہ دیں گے کہ ’’مَیں نے تو انسانوں اور پاکستانیوں کی ڈگریوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ ڈگری اصلی ہو یا جعلی، ڈگری، ڈگری ہوتی ہے‘‘۔
صدرِ سُخن وَر کے، نظریاتی اتالِیق؟
’’صدرِ سُخن وَر‘‘ جناب ممنون حسین کی ’’نظریۂ پاکستان‘‘ اور ’’تحریکِ پاکستان‘‘ سے دلچسپی کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے اپنے دَورِ صدارت میں پہلی مرتبہ 20 مئی 2015ء کو ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کے قائم کردہ دو نظریاتی اداروں ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے عہدیداروں خاص طور پر تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈل کارکُنان کو ایوانِ صدر میں مدّعو کِیا اور اُن سے نظریاتی روشنی حاصل کی اور خود بھی مہمانِین گرامی کو اپنے نثری کلامِ بلاغت نظام سے مستفید فرمایا۔ گذشتہ 24 سال میں ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے تحریکِ پاکستان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے متحدہ ہندوستان، مشرقی اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے 1150 کارکنان کو گولڈ میڈلز عطا کئے گئے جِن میں 147 اصحاب ماشاء اللہ بقید حیات ہیں لیکن ایوانِ صدر کی تقریب میں دو درجن سے کم کارکنان کو ہی مدّعو کِیا جا سکا۔
’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین ڈاکٹر کرنل (ر) جمشید احمد ترین خرابیٔ صحت کی بِنا پر لاہور سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکے لیکن 88 سالہ چاق و چوبند سابق صدرِ پاکستان اور ’’چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی حیثیت سے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے جانشین جناب محمد رفیق تارڑ اور اُن کے ساتھی، پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، جسٹس (ر) آفتاب احمد فرخ، جسٹس (ر) میاں محمود احمد، ایڈووکیٹ آزاد بِن حیدر، میاں فاروق احمد، جناب الٰہی بخش سومرو، سیّد ظفر علی شاہ، کرنل (ر) اکرام اللہ خان اور سیّد شاہد رشید اور دیگر خواتین و حضرات ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے اسلحہ سے لیس ایوانِ صدر کی رونق بڑھانے کے لئے موجود تھے۔
یہ کریڈٹ 85 سالہ جناب آزاد بِن حیدر کو جاتا ہے کہ جنہوں نے 2 نومبر 2013ء کو ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کا نظریاتی "G.H.Q" کا نام دیتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’اِس جی ایچ کیو سے تربیت پا کر نظریاتی "Brigades" نکلتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم کے سائے میں لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان منظور کر کے قیامِ پاکستان کو اپنی منزل بنا لِیا تھا۔ جنابِ ممنون حسین اِس قرارداد کی منظوری کے 9 ماہ بعد 23 دسمبر 1940ء کو پیدا ہُوئے۔ اِس لئے انہیں تحریکِ پاکستان میں حِصّہ لینے کا موقع نہیں مِلا۔
صدر پاکستان کی حیثیت سے جناب ممنون حسین نے 23 اور 25 دسمبر کو اپنی اور قائدِاعظم کی سالگرہ پر دوبار کیک کاٹے۔ یہ الگ بات ہے کہ 25 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف کا بھی یوم پیدائش ہے لیکن صدرِ محترم نے 20 مئی 2015ء کو اپنی زندگی کا یادگار دِن قرار دیا ہے جب ’’نظریۂ پاکستان‘‘ سے متعلق ’’ابواب اُلعلم‘‘ خود چل کر اُن کے پاس گئے تھے۔ مجھے عباسی خلیفہ ہارون رشید (763ئ۔809ئ) اور حضرت امام مالکؒ کا واقعہ یاد آگیا۔ خلیفہ نے امام مالکؒ سے کہا ’’آپ میرے دونوں بیٹوں مامون اور امین کو پڑھا دِیا کریں!‘‘۔ امام صاحبؒ نے کہا ’’آپ کے بیٹوں کو خود چل کر عِلم کے دروازے پر آنا ہوگا‘‘۔ خلیفہ مان گیا۔ مامون اور امین کو حضرت مالکؒ کے مدرسے بھجوادیا گیا۔ شام کو دونوں بھائیوں نے ابا حضور کو بتایا کہ ’’امام صاحبؒ نے ہمیں تعلیم دیتے وقت عام طَلبہ کے ساتھ بِٹھایا تھا‘‘۔ خلفیہ نے امام مالکؒ کو پیغام بھجوایا کہ ’’کیا آپ میرے بیٹوں کو عام طلبہ سے الگ نہیں پڑھا سکتے؟‘‘۔ امام صاحبؒ نے انکار کر دِیا۔
خلیفہ نے ہتھیار ڈال دئیے۔ مامون اُلرشید اور امین اُلرشید نے عام طلبہ کے ساتھ امام مالکؒ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ مَیں سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر مجید نظامی کی زندگی میں جناب ممنون حسین خود نظریاتی ’’ G.H.Q‘‘ تشریف کیوں نہیں لائے اور ڈاکٹرمجید نظامی صاحب نے بھی انہیں مُدعو کیوں نہیں کِیا؟ جو استاد کسی شاگرد کو اُس کے گھر جا کر پڑھائے اُسے "Tutor" ( اتالیق) کہا جاتا تھا اِس لحاظ سے جناب محمد رفیق تارڑ اور اُن کے ہم عمر (ہم مسلک) ساتھی بھی صدر ممنون حسین صاحب کے ’’ اتالیق‘‘ ہی ٹھہرے۔
مارچ 2014ء میں (اُن دنوں) افغانستان کے صدرجناب حامد کرزئی نے جناب ممنون حسین کو صدرِ سُخن وَر کا خطاب دِیا تھا لیکن جنابِ صدر نے اپنی شاعری کو عام نہیں کِیا حالانکہ علامہ اقبال نے متحدہ ہندوستان کے ہر مسلمان کو ہدایت کردی تھی کہ… ’’میرا نورِ بصیرت عام کر دے!‘‘
صدرِ سخن ور نے اپنے ہر نظریاتی اتالیق کو مخاطب کرتے ہُوئے نوید دی کہ ’’بحیثیت قوم ہم بہت جلد قائداعظم اور علامہ اقبال کے تخلیات کے مطابق پاکستان کی تعمیر میں کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ کاش صدرِ سُخن ور یہ نوید نثرکے بجائے نظم میں پیش کرتے؟ اور ہاں صدرِ محترم! کیا ہی اچھا ہو کہ آپ جب بھی لاہور تشریف لائیں تو تحریکِ پاکستان کے 91 سالہ لیکن جواں عزم کارکن ڈاکٹرکرنل (ر) جمشید احمد خان ترین کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں جنہیں آپ کا ’’نظریاتی اتالیق‘‘ بننے کا شرف حاصل نہیں ہو سکا۔ مولانا رومؒ نے کہا تھا کہ…
یک زمانے، صُحبتے با اَولیاء
خوشتر از صد سالہ، طاعت بے ریا
یعنی ’’مرشدِ کامل کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا سو سال کی بے ریا عبادت سے بڑھ کر ہے‘‘۔

ای پیپر دی نیشن