کراچی (کرائم رپورٹر + نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کراچی میں امن کے لئے 5 برسوں میں جاری کئے گئے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ صفورا گوٹھ میں ملوث ایک دہشت گرد کو پہلے بھی گرفتار کیا گیا تھا ۔دہشت گرد رہا کیسے ہوا، معاملے کی تحقیقات کرائیں گے۔ دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوادی ہے۔ کرچی میں 4500مدارس ہیں، جن میں سے 3سے 5فیصد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیز کے 14سے 15فیصد افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں۔ وہ سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بریفنگ دے رہے تھے۔ اجلاس سندھ سیکرٹریٹ میں چیف سیکرٹری سندھ کے دفتر میں سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہوا، ڈی جی رینجرز میجر جنر ل بلال اکبر نے کہا کہ کراچی میں دو طرح کی دہشت گردی ہورہی ہے۔ ایک گروہ پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور دوسرا گروہ سکالرز اور دوسرے طبقو ں کو نشانہ بنارہا ہے۔ کراچی میں 13فیصد واقعات فرقہ وارانہ اور 17فیصد سٹریٹ کرائم کے ہوتے ہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ نے کہا کہ کراچی میں امن کے لئے اسلحہ لائنسز کی جانچ پڑتال بہت ضروری ہے، اس کے علاوہ رینجرز کو اپنے طور پر کارروائی کا اختیار دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ کا مرکزی ملزم پہلے بھی گرفتار ہوچکا ہے اور ضمانت پر رہائی کے بعد اس نے کئی وارداتیں کیں۔ دہشت گرد کیسے رہا ہوا معاملے کی تحقیقات کرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں آپریشن بلاامتیاز کیا جارہا ہے۔ کالعدم تنظیموں، لیاری گینگ وار اور سیاسی جماعتوں میں موجود جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ آپریشن کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے۔ اس موقع آئی جی سندھ نے کہا کہ آج ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ صوبے میں اغواء کی وارداتیں صفر کردی ہیں۔ پولیس نے کارروائیوں کے دوران 425بڑے دہشت گرد گرفتار کیے ہیں۔ اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر حملے میں 10 دہشتگرد ملوث ہیں جبکہ پورا گروہ 125افراد پر مشتمل ہے، آئی جی سندھ نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ ملزم کی رہائی کیسے عمل میں آئی۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بریفنگ سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی قوتوں کو مکمل تعاون کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ قیام امن کے لیے جس قانون سازی کی ضرورت پڑے گی کمیٹی بھرپور تعاون کرے گی۔