پاکستان اپنے مسائل اور معاملات کے سلسلہ میں ایک ایسا الجھاہوا ہے جسکے سمجھنے سمجھانے میں کم و بیش ایک پون صدی ہونے کو آئی ہے۔ ایک تیسری اور چوتھی نسل آ کے لگی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ تا حال یہ اتھل پتھل سا ما حول نا قابلِ فہم الجھائو کا شکار ہے جس میں نا قابلِ یقین واقعات و حالات جنم لیتے رہتے ہیں۔ ہم سب با ہم دست و گریباں رہتے ہیں۔ مگر خوداحتسادی اور اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی عادت اپنی فطرت میں داخل نہیں۔ وطن عزیز کے درودیوار سے اٹھنے والی ایگزیکٹ جیسی آئی ٹی کمپنیاں ہمارے کلچر کی پہچان ہیں جن کے کارناموں نے بڑے بڑے عالمی زعماء اور قومی سیاست دانوں کے دماغوں کے پر خچے اڑا دیے ہیں۔ ایگزیکٹ پر جعلسازی اور فراڈ کے لگے الزامات کی خبر اگر مقامی اخبارات یا الیکٹرانک میڈیا پر بریک ہوتی تو شاید اس قدر اہمیت اختیار نہ کرتی۔ شاید اس خبر کو حکومتی سطح پر یوں پذیرائی نصیب نہ ہوتی اور اس کو محض میڈیا کی ہرزہ سرائی یا ریٹنگ کی ڈرامہ بازی قرار دے دیا جاتا۔ مگر چونکہ اس خبر کو سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے اٹھایا۔ اور اس پاکستانی کمپنی کے فراڈ کا بھانڈا پھوڑا اس لیے ہمارے ہاں اچھے اچھوں کے دماغ کے پرخچے اـڑنے لگے۔ البتہ مقامی میڈیا خلافِ توقع روایت سے گریز پا رہا اور خبر کے بریک کرنے میں خاصا محتاط رویہ اپنائے رکھا۔ ورنہ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ اب تک شہرت کے ساتویں آسمان پر بیٹھے ہوتے۔ اور کل کلاں کو قومی ہیروز کی صف میں کھڑے ہوتے ۔ بعینہ ٖ ملک ریاض جو ایک وقت میں میڈیا ٹرائل کی صلیب پر لٹکے دکھائی دے رہے تھے اور عین اسی وقت ٹی وی چینلز پر چلنے والے بحریہ گروپ کے اشتہارات میں ہیرو کے روپ میں دکھائی دیئے۔ آخری خبریں آنے تک نیو یارک ٹائمز نے ایگزیکٹ فراڈ پر اپنے اداریے میں انکشاف کیا ہے کہ یہ کمپنی جعلی ا سکول آن لائن چلاتی رہی اور جعل سازی سے جعلی ڈگریاں ایوارڈ کرتی رہی جس سے کمپنی نے ستر کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر کی رقم اکٹھی کی۔اخبار نے تشویش ظاہر کی کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومتِ پاکستان اس سکینڈل سے بے خبر رہی ہو۔ دیکھئے اس الجھاوے سے قوم کب نکلے۔گورنمنٹ ذرا سی فراخ دلی کا مظاہرہ کرے تو ایسی ان گنت کمپنیوں کو آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے جن کے دھندے ایگزیکٹ جیسے ہو بہو نہیں تو ملتے جلتے ضرور ہیں لیکن گورنمنٹ ان بکھیڑوں میں کیوں پڑے ۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جن میں الجھے بغیر مفر نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بے ہنگم ٹریفک نے انتظامیہ کو ناکوں چنے چبائے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں اربوں مالیت کے پراجیکٹ مکمل ہوئے اور اتنی ہی مالیت کے پراجیکٹ ابھی زیرِ تعمیر ہیں۔ سیاسی قائدین سمیت سبھی ان پراجیکٹ پر سیخ پا ہیں۔ کہ پنجاب کا سارا بجٹ محض شہرِ لاہور کی سڑکوں کی نذر کیوں۔ باوجود ان عرق ریزیوں کے ٹریفک کا اژدھا یونہی پھن پھیلائے محوِ رقص ہے اور عوام اسکے سامنے دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ ہیڈ بلو کی رانا ریزاٹ کے سیاحوں کی ادھم خیزیوں نے یہاں سے گزرنے والے مسافروں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ خصوصاََ اتوار کے روز ہیڈ بلوکی پر ٹریفک کو جیسے زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے اور رات گئے تک مسافروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ انتظامیہ اس دوران جیسے رخصت پر ہوتی ہے ۔ انتظامیہ سمجھتی ہے یہ بھیڑ بکریوں کی بھیڑ ہے۔ ریوڑ جنگل میں اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ سو یہ ٹریفک کا بھوت بھی خود بخود کافور ہو جائیگا۔ اسی حکمتِ عملی پر ہیڈبلو کی پر ٹریفک کا نظام رواں دواں ہے۔ یہ مسئلہ رانا ریزاٹ کا مالک دیکھے گا یا حکومت ۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ بعینہٖ لاہور جڑانوالہ روڈ پر سڑک کا کچھ حصہ نا مکمل ہے جو تقریباََ پانچ کلو میٹر ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ نا مرادی مسافروں کے گلے پڑی ہوئی ہے۔ مقامی گورنمنٹ اپنے وسائل سے اس کو مکمل کر سکتی ہے۔ مگر تا حال جیسے اس بد قسمتی کو مقدر کا دیا سمجھ لیا گیا ہے۔ اَن گنت مسائل میں سے ایک مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے۔ اکیسویں صدی کا پندرھواں سال گزر رہا ہے ۔ دیہات تو دور کی بات خالی کراچی جیسا تجارتی شہر تا حال تشنہ کام ہے۔ عوام بوند بوند پانی پٹرول کی قیمت پر خریدنے کو مجبور ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ تعلیم کا ہے ۔ جو ُایگزیکٹ نے چٹکی بجاتے ہوئے حل کر دیا ہے۔ کتنے ہی جعلی اسکول آن لائن کام کر رہے ہیں۔ اور ایگزیکٹ نے ڈگریوں کا بازار لگا رکھا ہے۔ بولو تم کیا کیا خریدو گے۔ جعلی ڈگریوں کے ذکر پر ایک دفعہ پھر ہمارے ایوانوں میں کھلبلی سی مچی ہے۔ سینٹ چیئرمین کی انگشت کشائی پر ایوان میں مو جود معزز اراکین پہلو بدلنے لگے ۔ دیکھئے کتنوں کے ہاتھوں سے طوطے اڑتے ہیں۔ مسائل باہم گتھم گتھا ہیں۔عوام اس دھینگا مشتی میں ہانپ رہے ہے‘ جمہوریت کا پہیہ چیختے چنگھاڑتے منزل کی جانب گامزن ہے۔