یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے جس میں نہ بھائی بھائی کا ہوتا ہے اور نہ کوئی خونی رشتہ خونی رہتا ہے بلکہ وہ مفادات کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ یہ محض ایک محاورہ ہے لیکن گہرائی سے جانچنے کے بعد اس کی پیچیدگیاں اور مسائل جاننے کے بعد میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان نعرے لگاتے ہیں کہ سیاست عبادت ہے‘ سیاست خدمت ہے لیکن وہ نعرے محض کھوکھلے نعرے ہیں۔ ہاں سیاست عبادت بھی تھی اور خدمت بھی لیکن اس دور میں جب انصاف عام ملتا تھا لوگوں پر ظلم کے پہاڑ نہیں گرائے جاتے تھے جب لوگوں کو معاشی مسائل کا سامنا نہ تھا اور وہ دور صرف خلفائے راشدین کا تھا۔اب سیاست محض اقتدار کے حصول کا ایک واحد راستہ ہے۔ جس کے ذریعہ سیاستدان عوام کا اعتماد حاصل کر کے اور انہیں گمراہ کر کے اقتدار میں آتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا ماحول ایسا بن چکا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا کوئی بھی سیاستدان اسے کسی بھی درجہ کے اقتدار میں آنے کے لئے یہ راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے خواہ وہ بلدیاتی اقتدار ہو یا قومی ۔ کچھ لوگ حقیقی طور پر معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں لیکن یہ سسٹم انہیں چلنے نہیں دیتا اور اس سسٹم میں چلنے کے لئے انہیں بھی اس سسٹم کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔بڑے بڑے فلسفی کہتے ہیں کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہم کردار ایک سیاسی کارکن کا ہوتا ہے۔ کسی بھی جماعت کی ریڑھ کی ہڈی اس جماعت کا کارکن ہوتا ہے لیکن کارکن ہمیشہ مظلوم ہوتا ہے جسے سیاستدان اپنے مطلب کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور ضرورت پوری ہونے پر پھینک دیتا ہے۔ کارکن ہمیشہ جذباتی اور محب وطن ہوتا ہے جس کے لئے سب کچھ اپنا وطن ہوتا ہے اور وہ اپنی ملک و قوم کی ترقی کے لئے سیاستدان کی میٹھی میٹھی باتوں سے متاثر ہو کر اسے قوم کا مسیحا سمجھنے لگتا ہے اور ملک و قوم کی محبت کی آڑ میں سیاستدان کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔ سیاستدان کارکن کے ان جذبات کا فائدہ اٹھا کر اسے استعمال کرتا ہے۔ سخت گرمی میں خود اپنے محلات میں آرام کرتا ہے اور اس کا کارکن اپنے وطن کی محبت اور جذبہ میں گمراہ ہو کر تپتی دھوپ میں گلی گلی‘ کوچے کوچے میں اسے متعارف کرواتا ہے اس کے نعرے لگاتا ہے اور ایک عام وڈیرے یا کاروباری شخصیت کو لیڈر بناتا ہے۔ جب وہ کارکن اپنے کسی کام سے یا عوام کی استدعا لے کر سیاستدان کے پاس جاتا ہے تو وہی سیاستدان جس کے لئے اس کا کارکن محنت کرتا ہے اسے انتظار کرواتا ہے‘ جھوٹے وعدے کرتا ہے‘ جھوٹی تسلیاں دیتا ہے۔ ( جاری ہے)
جب کارکن عوام میں مقبول ہونے لگتا ہے تو اسے سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ جب کارکنان آپس میں متحد ہو کر اپنا حق مانگتے ہیں تو ان میں تفرقہ پیدا کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کل کو مضبوط ہو کر ان سیاستدانوں کے برابر نہ آ جائے۔ جس جگہ ملک کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں‘ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ یہ بڑے بڑے عہدوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ و ہاں تمام سیاستدان اکٹھے ہو جاتے ہیں خواہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں اور کارکن کی رسائی وہاں تک نہیں ہونے دیتے۔کارکنان کو اپنی میٹھی باتوں سے گمراہ کر کے رکھتے ہیں اور کارکن کو صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کارکنان اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے موجودہ مسائل کو حل کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور اقتدار میں آ کر ان مسائل کو چھوڑ کر سٹیٹس کو کے مزے لوٹتے ہیں۔ سرکاری خزانہ اور فنڈز میں کرپشن کرتے ہیں‘ چھوٹے سے چھوٹاکام کرنے کے لئے رشوت لیتے ہیں‘ سرکاری نوکریاں فروخت کرتے ہیں۔ کرپشن کے پیسوں سے خریدی گئی بڑی بڑی گاڑیوں اور محلات میں رہتے ہیں اور جو کارکن ان کو اس مقام تک پہنچاتے ہیں انہیں انکا حق دینا تو دور کی بات انہیں پہچاننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ جب بلدیاتی یا گراس روٹ لیول کے کسی بھی انتخابات کا وقت آتا ہے جس پر گلی محلے میں دن رات محنت کرنے والے کارکن کا حق ہوتا ہے تو کارکن کو ٹکٹ دینے کے بجائے اپنے کسی منظور نظر یا رشتہ دار کو نوازتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد عام عوام اور کارکنان کو اقتدار سے دور رکھنا ہوتا ہے اور اسی اقتدار کے حصول کے لئے سیاستدان انہی کارکنان کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سیاسی کلچر کو ان حالات تک پہنچانے میں صرف مفاد پرست سیاستدانوں کا ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے میڈیا کا بھی بہت کردار ہے۔اسی وجہ سے ہمارے معاشرے کی یہ تصویر بنی کہ سیاست کرنا صرف وڈیرے اور امیر انسان کا کام ہے اور کارکن کا کام ہیں نعرے لگانا‘ پنڈال میں کرسیاں لگانا اور ملک کے نام پر اپنی زندگی دا¶ پر لگا دینا۔ غریب کارکن اور عوام کا صرف اتنا قصور ہے کہ وہ حب الوطنی اور ملک کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کی سیاستدانوں کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ جاتے ہیں اور جذبات میں آ کر بغیر انہیں پرکھے ان پر اندھا اعتماد کر بیٹھتے ہیں حالانکہ شعور کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس بات کی جانچ پڑتال کریں کہ آیا وہ اقتدار میں آنے کے اہل ہیں؟ کیا وہ صادق اور امین ہیں آئین کے آرٹیکل 63, 62 پر پورا اترتے ہیں؟ کیا ان کی تعلیم اتنی ہے کہ وہ صحیح غلط میں فر ق کر سکے؟ اگر ہم حقیقی طور پر اپنے ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس ملک کے نوجوان کو سیاسی کارکن بننے کی بجائے تعلیم اور شعور کے حصول پر توجہ دینی ہو گی اور سیاست سے دور رہنا ہو گا اور بزرگوں کو ہر کام محنت اور ایمانداری سے کرنا ہو گا‘ اس ملک کے میڈیا کو امیر اور غریب معاشرے کے دونوں رخ عوام کو دکھانے ہوں گے اور اس ملک کی عدالتوں کو انصاف کی فوری فراہمی کرنی ہو گی اور پوری قوم کو صحیح اور ایماندار لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا۔