مزدور

May 22, 2017

غلام عباس

یہ ضروری نہیں صرف مئی کے مہینے ہی میں مزدوروں سے اظہار یکجہتی کیا جائے ‘بلکہ مزدور کا ملک و ملت کی ترقی میں بڑا اہم کردار ہے اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ مزدور ڈے گذر گیا ایسے ہی جیسے دیگر تہوار ‘ عجیب بات یہ ہے کہ مزدور ڈے پر سرکاری چھٹی تھی لیکن مزدور طبقہ چوکوں میں کھڑا مزدوری کا انتظار کرتا رہا۔ ایسے ہی ایک مزدور سے پوچھا کہ آج آپ چھٹی کر لیتے یہ آپ کا دن ہی تو منایا جا رہا ہے ۔ مزدور نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا اگر میں چھٹی کر لوں تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔ اس مہنگائی کے دور میں دیہاڑی لگ جائے تو بڑی بات ہے ۔پرانے رومی کیلنڈر میں مئی تیسرا مہینہ تھا۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ مشہور رومی دیوی ”مے آیا“ سے منسوب ہے ۔ رومی اس مہینے کی پہلی تاریخ کو اہم تہوار مناتے تھے ۔ انگلستان میں بھی یکم مئی کو جشن منایا جاتا تھا۔ یہ ایک خاص موسمی تہوار تھا۔ بعدازاں اسے مذہبی رنگ دیدیا گیا۔ اس موسمی تہوار کی انیسویں تک حیثیت برقرار رہی یکم مئی 1886 ءمیں شکاگو کے مزدوروں نے زبردست مظاہرہ کیا ان کا مطالبہ تھا کہ اوقات کار میں کمی جبکہ معاوضہ بڑھایا جائے ۔ اس زمانہ میں یورپ میں مزدوروں کو طلوع آفتاب سے غروب تک مزدوری کرنا پڑتی تھی ۔ پولیس نے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ جس سے سیکڑوں قیمتی جانیں تلف ہوئیں ۔ بہت سے زخمی ہوئے ۔ مظاہرین نے کپڑا مقتولین کے خون میں رنگ کر اس کا پرچم بنا لیا۔ اس دن سے سرخ رنگ مزدوروں کے جھنڈے سے منسوب ہوا۔ شکاگو کے مزدور یکم مئی بطور سوگ منانے لگے ۔ 1890 ءسے یہ تہوار پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسے 1973 ءسے پاکستان میں سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا جو ہنوز جاری ہے ۔رسمی طور پر ہم یوم مئی کے موقع پر چھٹی کر کے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں ۔
لیکن عملاً ہم مزدوروں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتے ۔ مزدور ہمارے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہے ۔ ہمیں ان کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے ۔ پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرنی چاہیے ۔رزق حلال کمانے والے مزدور قابل ستائش ہیں ۔ محنت ‘مزدوری میں عار نہیں ‘حضرت علیؑ المرتضی ایک یہودی کے باغ میں مزدوری کرتے ۔ محنت کرنیوالے ہاتھوں کی قدر کرنی چاہئے ۔ زندگی میں جتنی ہمیں آسائشیں حاصل ہیں انکے پیچھے مزدور ہی کا ہاتھ ہے ۔ محنت مزدوری کرنیوالے لوگ توانا و تندرست ہوتے ہیں۔ کاہل ‘سست لوگ چلتے پھرتے بیماریوں کا گھر ہوتے ہیں ۔ شعر دیکھئے۔
سو جاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے۔
اس شہر میں مزدور سا کوئی دربدر نہیں
جس نے سارے گھر بنائے اس کا گھر نہیں
عرض ہے کہ مزدور بھی اس معاشرہ کا ذمہ دار فرد ہے اس کی صحت و تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا حکومت کیساتھ سوسائٹی کا بھی فرض ہے ۔حکومت مزدور کیلئے بڑا کام کر رہی ہے ۔ ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ یا مزدوری ایک تولہ سونا کے برابر ہو تب یہ سکھ کا سانس لے سکتا ہے ۔ ورنہ صورتحال یہ رہیگی بقول شاعر
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
پہلوانوں کے شہر میں ٹریفک وارڈن ظہیر عباس کمانڈو نے دیگر ساتھیوں کیساتھ ملکر ایک یوم کی تنخواہ مزدوروں میں بانٹی اور انہیں پھول پیش کئے جس پرمزدوروں نے چمکتی آنکھوں سے شکریہ ادا کیا۔ شہروں کے اہم چوکوں ‘گلیوں پر کافی تعداد میں مزدور نظر آتے ہیں جو گھر سے مزدوری کرنے کی نیت سے نکلتے ہیں لیکن ہر کسی کو عارضی محض ایک دن کی مزدوری کا موقع بھی میسر نہیں آتا۔ گھر خالی ہاتھ جاتے مزدور کے دل و دماغ پر جو گزرتی ہے وہ کربناک صورتحال ہوتی ہے ۔ اپنے ہاتھ سے اپنے اور فیملی کا پیٹ پالنے والے ہاتھ قابل ستائش ہوتے ہیں ۔ انہی مزدوروں نے اپنی ڈیوٹی ٹائم میں کمی کا مطالبہ کیا تو ظالموں نے بربریت کی حد کر دی ۔ علامہ اقبالؒ کا شعر یاد آ گیا ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
غور طلب امر یہ بھی ہے کہ سڑکوں ‘گلیوں ‘محلوں ‘چوکوں میں غبارے ‘گنڈیریاں ‘ٹافیاں ‘کھلونے وغیرہ فروخت کرنیوالوں کی طرف ہم زیادہ توجہ نہیں دیتے ‘گھروں میں ‘فیکٹریوں میں کام کرنیوالی خواتین کا بھی ہمیں خیال نہیں ہوتا۔ یہ سارے لوگ عظیم ہیں جو ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے اپنے بہن بھائیوں ‘بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔ دوسری طرف پیشہ ور بھکاری ہیں اور ہم انہیں فوری کچھ نہ کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ کھلونے بیچنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔ جبکہ پروفیشنل بھکاری خوب دیہاڑی لگا کر عیش کرتے ہیں ۔ پیشہ ور بھکاری ہاتھوں ‘پیروں کو پٹیاں باندھ لیتے ہیں ۔ بعض ایکسرے پکڑ کر توجہ حاصل کرتے ہیں ۔ وضع دار لوگ بمشکل پیٹ پالتے ہیں ۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ اس ناسور سے چھٹکارہ ممکن ہو سکے ۔ آئے روز کچے مکانوں کے گرنے سے اموات ہوتی ہیں ۔ غربت سے تنگ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایک طرف کمزور چھت والے مکان ‘جھگیاں دوسری طرف عالیشان بنگلے کوٹھیاں ہیں ۔ حکومت کیساتھ معاشرہ کا بھی قرض ہے کہ وہ اردگرد مزدور ‘کسان ‘مضارعے‘ تھوڑی آمدنی والے لوگوں کی ضروریات زندگی کا خیال رکھے تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہو۔

مزیدخبریں