چوکوں کی ری ماڈلنگ وقت کی اہم ضرورت !

May 22, 2017

احمد کمال نظامی

احمد کمال نظامی
فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر سلمان غنی ٹریفک مینجمنٹ کا جائزہ لینے کے لئے رکن پنجاب اسمبلی ظفر اقبال ناگرہ اور دیگر افسران جن میں ایس ڈی او روڈز کنسٹرکشن ڈویژن محمد اقبال بھی شامل تھے اانہوں نے فیصل آباد کے معروف چوک نڑوالا میں ٹریفک بہا¶ کا جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی اپنے دفتر سے اس جائزہ قافلہ کے ہمراہ معلوم نہیں کہ کون سے روٹ اور کون سی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے چوک نڑوالا پہنچے ، جو ایشیا کی سب سے بڑی رہائشی کالونی غلام محمد آباد کے لاکھوں باسیوں کا شہر بھی، داخل ہونے کا واحد راستہ ہے۔ اسے گیٹ وے سٹی بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس روز ڈپٹی کمشنر سلمان غنی نے گیٹ وے سٹی کا معائنہ کیا اسی روز اس گیٹ وے سٹی سے ایک شاہراہ ایسی بھی ہے جو ضلع کچہری کو جاتی ہے، اس کے ضلع کونسل چوک میں ہماری ناقص معلومات کے مطابق ایک ایسا احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا جو پوری دنیا میں ہونے والے مختلف مسائل و مصائب کے حوالہ سے واحد احتجاجی مظاہرہ تھا، جس نے احتجاجی مظاہروں کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ کو جنم دیا۔ دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو جاننے کے لئے چونکہ یہ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو انٹرنیٹ معلومات کے حوالہ سے آپ کے سامنے خزانوں کے منہ کھول دے گا لیکن کسی ایسے احتجاج کی ایک سطر بھی نہیں ملے گی جیسا احتجاج ضلع کونسل چوک میں ہوا اور احتجاج کرنے والوں نے ٹریفک بھی روک رکھی تھی۔ اپنی نوعیت کا پوری دنیا میں یہ احتجاج اس ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کرہے تھے جنہوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور ان میں کوئی اعزازی ڈاکٹر نہیں تھا سب اصلی ڈاکٹر تھے۔ آپ اس امر سے تو بخوبی آگاہ ہیں میڈیسن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ہم ڈاکٹر کہتے ہیں اور اسی اعزاز سے پکارتے ہیں ، فزیشن یا سرجن ہوتے ہیں۔ اصل ڈاکٹر تو پی ایچ ڈی ہوتے ہیں جنہوں نے مختلف موضوعات پر تحقیق و ریسرچ سے یہ اعزاز حاصل کیا ہوتا ہے۔ کہنے کو تو ہمارے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی ڈاکٹر ہیں کیونکہ انہیں ایک یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ملک میں شرح خواندگی بنگلہ دیش، سری لنکا کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہو اس ملک کے ڈاکٹرز روزگار اور ملازمت کی بھوک کے ہاتھوں اس قدر عاجز، لاچار، مجبور و مقہور ہوں کہ ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے دکھائی دیں۔ ان پر درج ہو ان پڑھ اسمبلی میں پی ایچ ڈی سڑکوں پر۔ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی کے قافلہ میں شامل افسران میں کوئی پی ایچ ڈی بھی تھا یا نہیں اگر اس ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کوئی قدرومنزلت ہوتی تو اس احتجاج پر قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا۔ آج ہم ایٹمی قوت ہیں اور اس قوت سے سرفرازی دلانے والا بھی ڈاکٹر ہے۔ خدا معلوم ان احتجاجی ڈاکٹرز میں کوئی ایسا بھی ڈاکٹرز موجود ہو جو پاکستان کی کایا ہی پلٹ دینے کی صلاحیت کا مالک ہو لیکن پیٹ کی بھوک اس کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر رہی ہے۔ اس احتجاج کو ہم کیا نام دیں خود پر ماتم کریں یا نظام پر ماتم کریں یا اس اشرافیہ کا ماتم کریں جو جلسہ عام میں بڑے فخر سے کہتے ہیں لوگو مانگو کیا مانگتے ہو۔ یہ عالم پناہی ظل سبحانی انداز مخاطب والوں کی نظر سے بھی یہ خبر ضرور گزری ہو گی۔ کالم کا آغاز چونکہ ٹریفک مینجمنٹ سے کیا تھا لیکن جملہ معترضہ کے طور پر پی ایچ ڈی ہولڈرز کی احتجاجی خبر سامنے آ گئی۔ لہٰذا ظہیر کاشمیری کا ایک شعر
”سیرت نہ ہو تو کاکل و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا“
نذر کرتے ہوئے فیصل آباد ٹریفک جنڈال چوکڑی کی طرف آتے ہیں۔ سلمان غنی ڈپٹی کمشنر فیصل آباد نے کہا ہے کہ فیصل آباد شہر کے مختلف چوکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک مینجمنٹ کے لئے فنی اور تکنیکی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور ٹریفک کے بہا¶ کے ساتھ ساتھ سڑک کی کراسنگ کرنے کے لئے پیدل چلنے والوں کو بھی سہولتیں فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوکوں کی ری ماڈلنگ کتنی بار کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب کسی چوک کی ری ماڈلنگ کی جاتی ہے تو توڑپھوڑ بھی ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی چاہے چوکوں کی ری ماڈلنگ کے نام پر کی جائے، منصوبہ بندی کرتے وقت مستقبل کے حالات پر ایک نظر ضرور ڈالی جاتی ہے اور اس کی مدت کا تعین بھی کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ٹریفک سائنس کے ماہرین جب بھی کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو ایڈہاک کو ہی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر سال نئی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور اس پر سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ فیصل آباد کے ایک نہیں درجنوں چوک ایسے ہیں جن کی بار بار ری ماڈلنگ ہو چکی ہے۔ ہماری ٹریفک سائنس کے بزرجمہر جب بھی کوئی پلاننگ کرتے ہیں وہ چوک کراس کرنے والے پیدل خواتین و حضرات اور بچوں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کرتے، اس پر ان صفحات میں متعدد بار روشنی ڈال چکا ہوں۔ نڑوالا چوک اپنی جگہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ چوک وی آئی پی کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ غیرملکی افراد اور غیرملکی وفود جب بھی فیصل آباد کے دورے پر آتے ہیں تو ہوائی اڈے سے شہر میں داخل ہونے یا ریسٹ ہا¶س تک جانے کے لئے اسی چوک کو کراس کرنا پڑتا ہے لیکن چوک کی صورت حال اس قدر حشر آلود ہوتی ہے اور ایک حشر کا سماں نظر آتا ہے کہ پون چوک تو رکشوں اور تانگوں کی وجہ سے ٹریفک کے بہا¶ میں رکاوٹ بنا ہوتا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی نے نڑوالا چوک میں ٹریفک کے بہا¶ کا جائزہ لیا۔ نڑوالا چوک جیسی خصوصی رکھنے والا ایک اور چوک بھی ہے جسے جھنگ بازار چوک کہا جاتا ہے۔ اسی چوک کے ایک کونے میں پولیس سٹیشن تھانہ کوتوالی بھی ہے لیکن اس چوک کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے کیونکہ اس چوک میں ٹریفک قوانین لاگو ہی نہیں ہوتے اور خودرو جڑی کی طرح اس چوک میں ٹریفک چلتی ہے اور پیدل چلنے والوں اور چوک کراس کرنے والوں کو سہولت نام کی کوئی چیز میسر نہیں ہے۔ سلمان غنی ڈپٹی کمشنر کے بیان سے یوں تاثر ابھرتا ہے کہ فیصل آباد میں ایک نیا ٹریفک پلان زیرغور ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کینال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کا بھی جائزہ لیا جائے کیونکہ کینال روڈ پر ہلکی اور بھاری ہمہ اقسام کی ٹریفک کا اژدہام ہوتا ہے اور اب تو کینال روڈ پر ہیوی ٹریفک یعنی ٹرکوں بسوں ٹرالوں اور کنٹینروں کی آمدورفت کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے جو کہ ٹریفک قوانین کے صریحاً خلاف ہے اور اس طرح کینال روڈ ہیوی ٹریفک کے باعث جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کینال روڈ کو بھی ٹریفک سگنلز کے نظام سے منسلک کیا جائے۔ کشمیر پل، ٹھٹھہ پل جہاں اکثر ٹریفک کے حادثات ہوتے ہیں ان پر ٹریفک سگنل نصب کئے جائیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر سلمان غنی نے کشمیر پل پر معائنے کے دوران ٹریفک کی بہتری کے لئے عارضی طور پر پل کو بند کر دیا اور یہ تمام ٹریفک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کینال روڈ پر بنائے گئے پل سے ٹرن لے کر واپس آتی تھی جس کے باعث ٹریفک کے بہا¶ میں آسانی پیدا ہو گئی تھی اور جو دو دو تین تین گھنٹے ٹریفک کی دھینگا مشتی ہوتی وہ بھی ختم ہو گئی تھی مگر اب پھر کشمیر پل کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے جس کے باعث یہاں ٹریفک کے مسائل میں شدید مشکلات اور اضافہ ہو گیا ہے۔ کشمیر پل کے ساتھ انڈرپاس بنائے جانا ضروری ہے اور اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر نے شہریوں کو یہ خوشخبری بھی سنائی تھی کہ جلد ہی کشمیر پل کے دونوں اطراف انڈرپاس بنا دیا جائے گا۔ اسی طرح مدینہ ٹا¶ن ٹھٹھہ پل جو کہ غیب کے ساتھ دو حصوں میں ہے یہاں بھی ٹریفک سگنل لگایا جانا چاہیے جبکہ پائپوں والا پل جو کہ مدینہ ٹا¶ن قبرستان کے سامنے واقع ہے اس پل کو بھی ڈی سی او نورالامین مینگل نے بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کے بہا¶ میں بہتری ہوئی تھی مگر اب پھر اس پل کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے جس سے ٹریفک کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اب جبکہ اس مقام پر کینال روڈ کے دونوں اطراف سروس روڈ بھی بن چکی ہے تو پھر یہ اصول یا ضابطہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پھر اس پل کو کیوں کھولا گیا ہے۔ اسی طرح پائپوں والا پل سے لے کر کشمیر پل تک جو شادی گھر بنے ہوئے ہیں ان کی پارکنگ سروس روڈ اور کینال روڈ پر کس اصول اور ضابطے کے تحت کی جاتی ہے۔ یہ پارکنگ کون کرواتا ہے اور اس کی اجازت کس نے دے رکھی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک معاشرے اور ٹریفک قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی شادی گھر یا کاروباری مراکز یعنی پلازوں کو سڑکوں سروس روڈوں پر گاڑیاں پارکنگ کرنے کی اجازت دی جائے۔ ڈپٹی کمشنر سلمان غنی کو بھی اس سلسلے میں معائنہ کر کے نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور شادی گھروں کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی پارکنگ کا بندوبست خود کریں ۔ اس وقت فیصل آباد میں اگر کوئی چوک اپنی خوبصورتی کے حوالہ سے یورپی چوک نظر نہیں آتا ہے تو وہ جھال خانوآنہ کا چوک ہے جو ایک انڈرپاس کا مالک ہے۔ ایسے ہی فیصل آباد میں بشیر نظامی چوک بالمقابل ریلوے سٹیشن جو کہ فیصل آباد شہر میں ریل کے ذریعے داخل ہونے کے بعد پہلا چوک ہے اس کو فیصل آباد کا جھومر بنانے کی ضرورت ہے چونکہ اب فیصل آباد کے مختلف چوکوں کی ری ماڈلنگ کا منصوبہ زیرغور ہے لہٰذا بشیر نظامی چوک کو اولیت دیتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر ایسی ری ماڈلنگ کی جائے کہ بشیر نظامی چوک آرٹ کا ایک نمونہ قرار پائے۔ سلمان غنی اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کریںگے اور ری ماڈلنگ کے لئے جو نقشے تیار ہو رہے ہیں ان میں یہ خصوصی ہدایت جاری کریں گے۔

مزیدخبریں