بلاشبہ ماہ رمضان ہر کلمہ گو کی روحانی صفائی اور ترقی کا مہینہ ہے۔ کدورتیں اور آفتوں سے خلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ مقدس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تاجر حضرات بلاامتیاز وہ بڑا تاجر ہے یا چھوٹا تاجر ہے اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں کمی کریں مارکیٹوں کے ریٹ کم ہوں اور مہنگائی کی بجائے ارزانی اور کم قیمت پر ضرورت کی اشیاءفراوانی ہو۔ لیکن بدقسمتی سے رمضان مقدس کو ہماری تاجر برادری سیزن قرار دیتی ہے اور من مانی قیمتوںپر کھانے پینے اور دوسری ضرورت کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور ایک عام آدمی کے لئے محدود آمدنی میں زندگی کی ضرورتیں پوری کرنا پل صراط کو پار کرنے والی بات ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال ہر حوالہ سے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے مسلم معاشرے کے لئے افسوسناک اور شرمناک بھی ہے۔ ایک اور بات یہ ہمارا معاشرہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں تاجر حضرات رمضان کا حوالہ دے کر قسم بھی کھاتے ہیں۔ جو ہمارے اخلاقی انحطاط کی غمازی بھی کرتی ہے اور ماہ مقدس جو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہوتا ہے بسااوقات زحمت کا مہینہ بن جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہی کیوں اس بابرکت اور مقدس ماہ کو اس قدر مہنگا اور مشکل کیوں بنا دیا جاتا ہے جبکہ اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں۔ لہٰذا معاشرہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ماہ مقدس میں مہنگائی کا مصنوعی بحران نہ پیدا ہونے دیں اور مہنگائی کی عفریت کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ ایک ذمہ داری حکومت کی بھی ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں اور ناجائز منافع خوری کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ مارکیٹ میں اشیاءکی طلب جب بڑھ جاتی ہے تو ان کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہماری تاجر برادری اپنے ایمان کا جزو قرار دیتی ہے۔ حکومت نے اشیاءضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی مقرر کر رکھے ہیں جو مختلف تاجروں اور دکانداروں پر چھاپے مارتے ہیں جو گراں فروشی جیسے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔ فیصل آباد میں بھی پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کی کارکردگی کے حوالہ سے جو رپورٹ منظرعام پر آئی ہے وہ اس قدر مایوس کن ہے کہ بعض نے محض خانہ پری کے گرانفروشوں پر چھاپے مارے۔ گویا گرانفروشوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جن کے سپرد ذمہ داری سونپی گئی تھی اس رپورٹ کے حوالہ سے فرائض میں غفلت کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں خود قانون کے کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس وقت کسی طرف کوئی ضمیر کی خبر سنائی نہیں دیتی البتہ رمضان مقدس کے حوالہ سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ضرور آتا ہے کہ حکومت نے رمضان پیکج کے حوالہ سے اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے اور اعلان کے مطابق ان اشیاءضروریہ کی تعداد آٹا، گھی، چینی سمیت انیس ہے اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں رمضان پیکج ایک ارب ساتھ کروڑ روپیہ کا جاری کیا گیا ہے جو عام آدمی کے لئے ایک خوش کن خبر ہے۔ اس رمضان پیکج کے تحت آٹے پر چار، چینی پر پانچ، گھی، دال چنا، بیسن پر پندرہ اور کھجور پر بیس روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ رمضان پیکج کے تحت تمام یوٹیلٹی سٹورز پر بائیس مئی سے عملدرآمد ہو گا۔ رمضان پیکج کا اعلان وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے فیصد عوام حکومت کے قائم کردہ یوٹیلٹی سٹورز پر خریداری کرتے ہیں جبکہ صارفین کی 90فیصد سے زیادہ تعداد عام مارکیٹ سے خریداری کرتی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انتظامیہ کی نگرانی میں تمام شہروں میں رمضان بازار بھی قائم کئے جا رہے ہیں اور ان رمضان بازار میں اشیاءخوردونوش اسی قیمت پر عوام کو دستیاب ہوں گی جو یوٹیلٹی سٹورز کے سٹال ہوں گے لیکن یہ بات اکثر مشاہدہ میں آئی ہے کہ جن اشیا©ءپر حکومت کی طرف سے سبسڈی کا اعلان کیا جاتا ہے ان اشیاءپر پابندی عائد کر دی جاتی ہے مثلاً چینی کو لیتے ہیں جو کسی بھی صارف کو دو کلو سے زیادہ فراہم نہیں کی جاتی اور صارفین چینی، گھی اور آٹے کی باقی ضرورت پوری کرنے کے لئے عام مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں اور یوٹیلٹی سٹورز پر جو آٹا فروخت کیا جاتا ہے وہ عام مارکیٹ میں فروخت ہونے والے آٹے کے مقابلہ میں کم اور گھٹیا کوالٹی کا ہوتا ہے اور حکومت اس آٹے کی تیاری فلور ملز سے کراتی ہے اور پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی۔ یہ سراسر عوام سے رمضان المبارک کے نام پر عوام سے دھوکا ہوتا ہے جو حکومت خود کرتی ہے جہاں تک رمضان بازاروں کا تعلق ہے رمضان بازار میں بعض اشیاءجو کوالٹی اور معیار کے اعتبار سے کم ہوتی ہیں لیکن ان کی قیمت عام مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اب پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی بات کرتے ہیں جنہوں نے اپنی کارکردگی کاکیسا مظاہرہ کیا ہے اور جن افراد کو گراں فروشی کے الزام میں جرمانہ کی سزا دی ہے ان میں کوئی ایک بھی بڑا تاجر نہیں ہے بلکہ سبھی پرچون فروش ہیں جبکہ گرانی اور مہنگائی تو مگرمچھ کرتے ہیں جن کی ہوا کو کوئی نہیں چھوتا۔ جب تک بڑے مگرمچھ اور مینوفیکچررز پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا اس وقت تک کیسے ممکن ہے کہ گرانی کی عفریت کو نکیل ڈالی جائے؟۔ جبکہ یہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے کہ غیرمسلم ممالک میں غیرمسلم تاجر رمضان المبارک میں اپنی قیمتیں کم کر دیتے ہیں لہٰذا مسلم تاجروں کی روش قابل اصلاح ہے۔ شاید انہی کے بارے میں علامہ اقبال نے جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود والا آفاقی مصرعہ کہا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماءکرام جو محراب و منبر کا خود کو وارث قرار دیتے ہیں اہل قلم، اہل دانش اور میڈیا سے وابستہ حضرات مذاکروں اور گفتگو سے اس صورت حال کو روکنے کی کوشش کریں حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ ان کی باتوں کا یہ لوگ کوئی اثر قبول نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ یہ رمضان دشمن ہی نہیں خود اپنے بھی دشمن ہیں جنہیں خیروشر کی کوئی تمیز
نہیں!!