اس بار بھی اسے میری مجبوری، حب الوطنی یا پھر اسے میرا مسلسل قومی رونا کہہ لیں کہ گزشتہ 30 برسوں سے شدید مالی بحران سے دو چار اور شرمناک حد تک خسارے میں چلنے والی اپنی قومی ائر لائن PIA کے دنیا بھر میں افسوسناک حد تک گرے وقار کی بحالی کیلئے انہی کالموں اور انتظامیہ کے بڑے بڑے ان ”صابوں“ سے جن تک میری رسائی ممکن تھی ”ترلے اور منتیں“ تک کیں.... ائربسوں، فوکر اور جمبو طیاروں پر پاکستانی پرچم کے ”لوگو“ کی عزت و وقار تک کے واسطے دیئے مگر افسوس! اب تک کی جانے والی ایسی تمام تر کوششیں اس لئے بھی ناکام ہو چکی ہیں کہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ پر چند روز قبل پی آئی اے کی پرواز PK785 سے برآمد ہونے والی ہیروئن نے محض پی آئی اے انتظامیہ کو ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہر پاکستانی کو بھی مشکوک بنا دیا ہے....؟ جس سے حکومت پاکستان کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہیروئن، گانجا، کوکین اور ایکسٹی ایس غیر قانونی منشیات پی آئی اے کے طیاروں سے برآمد ہونا کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسی ڈرگز فضائی عملہ سے برآمد ہو چکی ہیں۔ شرابی ہوا بازوں کو برطانوی عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جا چکا ہے....؟ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پی آئی اے کے عملے اور طیاروں کو ہی آخر مشکوک کیوں تصور کیا جاتا ہے؟
اس بات میں تو قطعی شک و شبہ نہیں کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم بارڈر ایجنسی کے اشتراک سے کسٹم اور امیگریشن اہلکاروں نے PK785 میں ہیروئن کی خفیہ اطلاع پر ایسی بھرپور تلاشی لی کہ اپنے ہاں کے ایس ایچ اوز یاد آ گئے بارڈر ایجنسی کے افسران نے کیمروں اور ریکارڈنگ سے مکمل شواہد اکٹھے کئے اور یوں NCA نے بڑی تعداد میں ہیروئن برآمد کر لی جس کی قیمت کروڑوں روپے بتائی گئی ہے ہیروئن کی برآمدگی کے ساتھ ہی پی آئی اے کے کپتان عملے کے 13 ارکان کو حراست میں لے کر ان سے کئی گھنٹے تفتیش کی گئی دوران تفتیش ان سے پاسپورٹ لے لئے گئے اور پھر بعدازاں عملے کو پاسپورٹ دیتے ہوئے انہیں پرواز لاہور لے جانے کی اجازت دے دی گئی۔
طیارے میں ہیروئن رکھے جانے کی اطلاع خفیہ تھی۔ اس لئے PK785 کو Landing سے قبل تقریباً 15 منٹ تک فضاءمیں رکھا گیا۔ لینڈنگ ہوتے ہی کسٹم، نیشنل کرائم ایجنسی، بارڈر ایجنسی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے طیارے کی تلاشی لینا شروع کر دی تلاشی کیلئے کھوجی کتوںکے علاوہ 30 دیگر اہلکاروں نے بھی اس آپریشن میں حصہ لیا۔ طیارے کے بیشتر حصوں کچن میں سیٹیں، ٹائلٹ اور راہداری شامل تھی ادھیڑ دیا گیا اور پھر جلد ہی طیارے کے ٹوائلٹس کے قریب حفیہ خانوں میں چھپائی ہیروئن کو ڈھونڈ نکالا گیا۔ بارڈر ایجنسی کے مطابق اس Opration کے بارے میں پاکستان اور برطانیہ میں PIA کو مطلع کر دیا گیا تھا؟ ہیروئن کس نے چھپائی.... کیسے چھپائی اور کس کیلئے چھپائی ایسے سوال ہیں ان کا جواب دینا فی الحال اس لئے بھی مشکل ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ ابھی مزید گہری تحقیق کا متقاضی ہے تاہم بی بی سی سے پی آئی کے حوالے سے نشر کی گئی اس افسوسناک خبر کے ساتھ ہی برطانوی پاکستانیوں کے سر ندامت سے ایک بار پھر جھک گئے اس پر ملک و قوم کی اس سے بڑی رسوائی اور کیا ہو سکتی تھی....؟ مگر قربان جائیں پی آئی اے انتظامیہ کے بڑے صابوں کے جنہوں نے اس شرمناک واقعہ کا رخ تحقیقات کے بجائے اپنے دفاع کی جانب موڑ لیا ہے....؟ یہ کہنا کہ پی آئی اے کے طیارے سے پکڑی گئی منشیات کے بارے میں حکام کو تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا گیا....؟ یا یہ کہنا کہ طیارے کی تلاشی کے دوران برطانوی ایجنسیوں کے طریقہ کار پر پی آئی اے انتظامیہ اب خاموش نہیں بیٹھے گی....! یا پھر یہ کہنا کہ لندن میں پی آئی اے طیاروں کی تلاشی یا کسی اور بہانے سے پرواز کو دانستہ طور پر تاخیر کا شکار بنایا جاتا ہے جس سے شیڈول تو متاثر ہوتا ہی ہے مگر بعض حالتوں میں جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے....؟
میرے خیال میں یہ بڑے صابوں کی اپنی کمزوری چھپانے اور محب وطن مسافروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی محض ایک کوشش ہے وقت آ گیا ہے کہ الزامات یا پروڈکشنز کے بجائے پی آئی اے اپنا وہ کھویا وقار دوبارہ بحال کرے جس پر کبھی غیر ملکی بھی فخر کیا کرتے تھے۔
کروڑوں ڈالر مالیت کی طیارے کے خفیہ خانوں میں چھپائی A class ہیروئن کوئی معمولی واقعہ نہیں اپنی Safe Side کے بجائے پی آئی اے کے متعلقہ اعلیٰ حکام اور حکومت کو اس شرمناک واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنا ہو گی۔ طیارے میں انتہائی مخصوص طریقہ سے چھپائی اس ہیروئن کے پس پردہ افراد کو ڈھونڈنا ہو گا تعلق ان کا خواہ ایڈمن سے ہو.... ٹیکنیکل یا انجیئرنگ شعبے سے! ہر حال میں انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا کیونکہ اس حوالہ سے پاکستان کی عالمی سطح پر ہونے والی اس رسوائی سے پاکستانیوں کے سرتا ہنوز ندامت سے جھکے ہوئے ہیں۔
برطانوی پاکستانیوں کی یہ خواہش ہی نہیں مطالبہ بھی ہے کہ اس شرمناک واقعہ کی صاف و شفاف تحقیقات خود وزیراعظم محمد نواز شریف جنہوں نے بوئنگ طیارے میں متعارف کروائی گئی بزنس کلاس کے موقع پر اسلام آباد سے پہلے طیارے کو خود لندن کے لئے روانہ کیا تھا کروائیں تاکہ قومی ائرلائن اور پاکستانی پرچم کو دنیا میں بدنام کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا سکے۔