سیاستدانوں کی کہہ مکرنیاں، اور بدحواسیاں

ویسے تو سب سیاستدان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں بات کہہ کر بوقت ضرورت صاف مکر جاتے ہیں۔ مدقوق منطق وہی گھسا پٹا جملہ، میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پڑھا گیا ہے۔ ایک ہی سانس میں دو متضاد جملے ذومعنی جملے کہنا ایک بہت بڑا آرٹ ہے جس سے ہمارے آجکل کے سیاستدان یکسر نابلد اور ناآشنا ہیں۔ جب دور ابتلا ہو تو پھر ذہن اور زبان میں ربط نہیں رہتا بات کرتے ہوئے انہیں پتہ نہیں چلتا کہ کیا کہنا چاہئے تھا اور کیا کہہ گئے ہیں۔ دروغ بیانی اور سبز باغ دکھانا ہماری قومی سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ الیکشن سے پہلے وعدوں کی بہار خیمہ زن ہوجاتی ہے اگر چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا، پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر نہ بنایا تو میں شیر کہلانا چھوڑ دونگا۔ نوکریاں ہر در پر دستک دیں گی، کوئی لینا والا نہ ہو گا۔ دہشتگردی، چوری چکاری، دھونس اور دھاندلی کا قلع قمع کر دیا جائےگا۔ ”راہی مسافر جنگل میں سونا اچھالتے جائینگے اور کوئی نہ پوچھے گا میاں تم کون ہو؟ اور کدھر جاتے ہو؟“ بس ایک شرط ہے! مجھے اس بار بھی پانچ سال کیلئے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے دو، پچھلے پانچ سال اس لئے کچھ نہ کر سکا کہ ہر طرف دھرنے تھے، ہڑتالیں اور جلسے جلوس تھے، سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے تھے۔ گو امپائر کی انگلی بوجوہ اٹھ نہ سکی لیکن اس کا ”دھڑکو“ ہر وقت لگا رہتا تھا۔ خوف اور بے یقینی کی فضا میں ترقی کے پہئیے رک جاتے ہیں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے، کس کو اولیت کا شرف بخشا جائے، ماشاءاللہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے، ان حالات میں بات کا آغاز اپنے محبوب میاں صاحب سے کرتے ہیں۔ نوازشریف سینئر سیاستدان ہیں ہما انکے کندھوں سے اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ تیس سال تک کسی نہ کسی رنگ میں اقتدار میں رہنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ وزیر خزانہ، وزرائے اعلیٰ، تین مرتبہ وزیراعظم! کسی بنانا ری پبلک کے نہیں بائیس کروڑ لوگوں کے ملک کے جو دنیا کی چھٹی جوہری قوت بھی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں اسکے قدم کچھ آگے ہی بڑھتے نظر آتے ہیں۔ ”ٹیکنیکل نیوکلیئر ہتھیاروں نے ہندوﺅں کو لرزہ براندام کر رکھا ہے اور انکے محسن و مربی کو مشوش! ابراہم لنکن جو کہہ گیا تھا سو کہہ گیا، انہیں کامل یقین ہے کہ عوام کو ہمہ وقت غچہ دیا جا سکتا ہے۔ بیس ہزار کے مجمعے میں عین لوڈشیڈنگ کے وقت، فرماتے ہیں کہ ہم نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا ہے تو پسینے میں شرابور عوام تالیاں بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر لیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایک دن پہلے بجلی کی بندش کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر ٹائر جلائے ہوتے ہیں۔ غبارے کی طرح پھولے ہوئے بجلی کے بلوں کو ایس ڈی او واپڈا کے دفتر کے باہر لہرا کر احتجاج کیا تھا۔ آجکل ان پر دورابتلا ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ان کی مشکلیں آسان ہوں، لیکن تاریخ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا داغدار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کل کا مورخ کیا لکھے گا؟ یہی کہ گزشتہ پینتیس برسوں میں ایک طویل عرصہ تک انہیں آمروں کی مدد حاصل رہی جب جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کو نکال باہر کیا تو موصوف پہلے شخص تھے جنہوں نے اس پر سخت تنقید کی اور اُنہیں پارٹی صدارت سے ہٹانے کیلئے کنونشن بلایا۔ تمام ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا کہ انکے علاقے کے ممبران اسمبلی کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ جب جنرل صاحب نے اپنی بقیہ زندگی انکے نام کی تو وہ غالباً قبولیت کی گھڑی تھی چنانچہ دعا قبول ہوئی اور وہ ایک ہوائی حادثے میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ضیاءالحق کے جانے کے بعد بھی مدد اور معاونت کا سلسلہ ختم نہ ہوا انکے جانشین جنرل حمید گل نے انکی حمایت کا بیڑہ اٹھایا، اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام ان کے زرخیز ذہن کی اختراع تھا۔ جنرل اسلم بیگ، جنرل درانی نے دامے درمے قدمے انکی مدد کی، اسکے بعد بھی یہ سلسلہ نہ رکا تین مرتبہ وزیراعظم بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔
مرور ایام نے ایک مرتبہ پھر میاں صاحب کو مشکل مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ عدالتی حکم کے تحت انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پارٹی صدارت سے دستبردار ہونا پڑا ہے ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ (STING IS IN THE TAIL) فوجداری مقدمات اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیںِ، اس وقت ان کا بیانیہ کیا ہے؟ یہی کہ:
منصف بغض و عناد سے بھرے پڑے ہیں۔ انہیں انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ اداروں نے سازباز کر لی ہے۔ بائیس کروڑ عوام کے فیصلے کو پانچ لوگ نہیں بدل سکتے ان کا مقابلہ زرداری اور عمران سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ اس اتحاد ثلاثہ کو وہ آنےوالے الیکشن میں شکست فاش دینگے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے آئین میں تبدیلی لائیں گے اور اس طرح انکی چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو گی۔ ساتھ ہی فرماتے ہیں انہیں سزا دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس کی انہیں کوئی پروا نہیں۔ اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں استغاثہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے تمام گواہوں نے میرے حق میں بیان دیا ہے۔ میں قبل از وقت بریت کی درخواست دے رہا ہوں۔ BECAUSE IT IS A CASE OF NOEVIDENCE
-6 ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیئے! میاں صاحب سے بڑے ادب سے سوالات کئے جا سکتے ہیں۔ آپ ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں جہاں ہر قدم پر جوڈیشری نے آپکی مدد کی ہے۔ آپ ہر مرتبہ صاف بچ جاتے رہے ہیں، سپریم کورٹ حملہ کیس میں چمچوں اور کڑچھوں کو تو سزا ہو گئی آپ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ آپ کے ایما پر جسٹس قیوم نے بے نظیر کو سزا دی، چھوٹے صاحب اور جج کے درمیان گفتگو کی ٹیپ پکڑی گئی، جسٹس قیوم، راشد عزیز چیف جسٹس نوکری سے فارغ کر دیئے گئے، آپ سے کوئی بازپرس نہ ہوئی۔ اصغر خان کا مقدمہ (OPEN AND SHUT) کیس تھا قانون کا ہاتھ آپکے گریبان تک نہ پہنچ سکا موجودہ مقدمے کو مکافات عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔ آپ نے خود بیل کو آمجھے مار! کی دعوت دی ہے۔ نہ آپ نے نیب کے قانون میں اصلاحات کیں نہ شاہ صاحب اور چودھری نثار کے مشوروں پرعمل کیا، وگرنہ یہ کیس کب کا اسمبلی میں آپکی پارٹی اکثریت کے بوجھ تلے دب چکا ہوتا۔ جن لوگوں پر آپ نے مہربانیاں کی ہیں جن کا آپ نے کبھی کچھ نہیں پگاڑا وہ یکایک آپ کیخلاف کیوں ہو گئے ہیں؟ انتقامی جذبے اس وقت ابھرتے ہیں جب آپ کسی کو زک پہنچاتے ہیں اسکے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں، باقی رہی خلائی مخلوق کی بات تو آپ سے زیادہ اسے کون جانتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ سن لیں، ایک غریب شخص خودکشی کی نیت سے دریا میں چھلانگ لگانا چاہتا تھا کہ ملک الموت نے اسے پکڑ لیا۔ بولا تو کیوں مرنا چاہتا ہے؟ بولا فاقوں سے سسک سسک کر مرنے سے بہتر ہے کہ ایک مرتبہ ہی جان سے گزر جاﺅں۔ فرشتہ بولا، ابھی تمہارے مرنے کا وقت نہیں آیا۔ میں تمہیں ترکیب بتاتا ہوں جلد امیر ہو جاﺅ گے! وہ کیسے؟ تمحکیم بن جاﺅ جب مجھے بیمار کے پاﺅں کی طرف دیکھو تو سمجھ جاﺅ کہ اس کا وقت آن پہنچا ہے۔ اسکے لواحقین کو صاف صاف بتا دو کہ علاج کا وقت ختم ہو چکا ہے، اگر مجھے اسکے سر کی جانب کھڑا دیکھو تو سمجھ جاﺅ کہ وہ بچ جائےگا۔ اسے شربت پلا کر تندرست کر دو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص امیر ہو گیا اسکی حکمت کے چرچے دور دور تک پھیل گئے۔ لوگ کہتے حکیم ہو تو ایسا! گھوڑے، نوکر، محلات، زندگی مزے سے گزر رہی تھی کہ ایک دن وہ خود بیمار پڑ گیا صبح اسکی آنکھ کھلی تو اس نے عجیب منظر دیکھا فرشتہ اس کی پانیتی کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔ نہیں! کہہ کر اس نے ایک چیخ ماری اور پاﺅں دوسری طرف کر لئے۔ آنکھیں کھولیں تو ملک الموت پھر پاﺅں کی طرف کھڑا پایا۔ یہ عمل اس نے کئی مرتبہ دہرایا۔ ساتھ ساتھ دہائی بھی دیتا رہا، گھر والوں نے سمجھا کہ اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی ہے اور جنون میں ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔ انہوں نے اسے رسیوں سے جکڑ دیا بے بسی سے بولا میری موت تمہاری نہیں بلکہ اپنوں کی وجہ سے واقع ہو رہی ہے۔ خلائی مخلوق عام آدمی کو تو نظر نہیں آتی البتہ میاں صاحب اسے بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ خود کردہ را علاجے نیست!
-7 عمران خان کا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ہے۔ میاں صاحب کو جو نقصان ہوا ہے یا ہو گا اس کا منطقی طور پر فائدہ خان نے اٹھانا ہے۔ ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگا۔
وہ کیسے؟ ہم نے پوچھا بولے (سادگی) NAIVETY کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اب ذرا اس کے بیانات اور عمل پر غور کرو، پانامہ والا فیصلہ کمزور ہے! میرے بیس ممبروں نے سینٹ الیکشن میں رشوت لی ہے! مجھے بھی پچاس کروڑ کی پیشکش تھی۔ پینتیس پینکچروں کی اب بھی بات کرتا ہے زرداری سے اتحاد خودکشی ہو گا (بلوچستان میں ووٹ بھی اسکے آدمی کو دیئے) شادیاں بھی کیں تو کس بے ہنگم انداز سے! میں سریم کورٹ اور فوج کے ساتھ کھڑا ہوں، اس سے کیا تاثر ابھرتا ہے؟ وہ قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ انہیں تمہاری مدد کی کیا ضرورت ہے؟ زرداری کے متعلق کالم چھوڑ کتاب لکھی جا سکتی ہے الیکشن ہو لینے دیں مولانا فضل الرحمن کی ”آنیاں جانیاں“ دیکھنے کے قابل ہونگی۔ ان کی قوت شامہ اتنی تیز ہے کہ سو میل سے حلوے کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں۔ سراج الحق ایماندار شخص ہے۔
BUT ALASTHAT IS ALL

ای پیپر دی نیشن